درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
گویا زباں تھی بے زباں ہوشِ بیاں نہ تھا آتش تھی شعلہ زن مگر اس میں دھواں نہ تھا خوشبو تو ہر طرف تھی مگر گُلستاں نہ تھا مفہومِ قُربِ خاص تھا لفظ و بیاں نہ تھا اک پھول جاوداں کے سوا گُلستاں نہ تھا ان کے سوا کوئی بھی وہاں رازداں نہ تھا خورشید و ماہ و کہکشاں کچھ بھی وہاں نہ تھا دنیائے دوں نہ تھی کوئی دیگر جہاں نہ تھا آنکھوں کے دائرے میں جمالِ جہاں نہ تھا کون و مکاں کا سامنے کوئی نشاں نہ تھا اُس بزم کا اک عالمِ ھو نام ہے اخؔتر گویا سوا خُدا کے کوئی بھی وہاں نہ تھا لہٰذا اللہ کے راستہ میں مُجاہدہ سے گھبرانا نہیں چاہیے جو مُجاہدہ سے گھبراتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا وفادار بندہ نہیں۔ آپ بھی اس کو دوست نہیں بناتے جو حلوہ خور ہے، حلوہ کھانے میں سب سے آگے لیکن جب فِدا کاری و وفاداری اور قربانی کا موقع آتا ہے تو بھاگ جاتا ہے۔ ایسے مطلبی اور بے وفا کو آپ اپنا دوست نہیں بناتے جو آپ کے لیے کوئی تکلیف نہیں اُٹھاتا۔ جو آپ کا جاں نثار اور وفادار ہوتا ہے اسی کو آپ بھی اپنا دوست بناتے ہیں پس جو شخص نافرمانی کرکے اللہ تعالیٰ سے بے وفائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی ایسوں کو دوست بنانا پسند نہیں کرتے۔ حضرت حکیمُ الامّت مجدّد الملّت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃُاللہ علیہ کو دس برس تک ایک اشکال تھا کہ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہیں اور رحمت کا تقاضا تھا کہ