درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
باچناں رحمت کہ دارد شاہ ہُش بے ضرورت ازچہ گوید نفس کُش ارشاد فرمایا کہ ہُش ہوش کا مخفف ہے۔ حکیم الامّت نے اس کا ترجمہ سُلطان العقول فرمایا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اگر ضرورت نہ ہوتی تو وہ سلطان العقول جو بے پایاں رحمت کا مالک ہے بے ضرورت نہ کہتا کہ نفس کُشی کرو، بُری خواہش کو مارو یعنی بے ضرورت مُجاہدہ فر ض نہ کرتا۔ مُجاہدہ کا فرض کرنا دلیل ہے کہ اس میں بڑے اسرار اور حکمتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؎ جو لوگ ہماری راہ میں مُجاہدہ کرتے ہیں یعنی ہمیں راضی کرنے کے لیے مشقت برداشت کرتے ہیں اور ہمارے دین کی نصرت میں تکلیفیں اُٹھاتے ہیں اور ہمارے احکام کو بجا لانے میں مشقت برداشت کرتے ہیں اور جن باتوں سے ہم نے منع کیا ہے ان سے بچنے میں ہر تکلیف اُٹھالیتے ہیں، اپنے دل کا خُون کرلیتے ہیں لیکن مجھے ناراض نہیں کرتے ان کو کیا انعام ملتا ہے؟ لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ان کے لیے ہم ہدایت کے بے شمار راستے کھول دیتے ہیں جس کی تفسیر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کی ہے ای سُبُلَ السَّیْرِ اِلَیْنَا وَ سُبُلَ الْوُصُوْلِ اِلٰی جَنَابِنَا؎ ان کو سیر الی اللہ بھی نصیب ہوتی ہے اور وصول الی اللہ بھی نصیب ہوجاتا ہے یعنی وہ اللہ تک بھی پہنچ جاتے ہیں اور پھر اس سے بڑھ کر درباری بھی ہوجاتے ہیں یعنی قُربِ خاص سے مشرف ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیتِ قُرب اور تجلّیاتِ مقربات کو جو خاصانِ بارگاہِ حق کو عطا ہوتی ہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محض اپنے کرم سے نصیب فرمادے، آمین۔ جس کو یہ قربِ خاص نصیب ہوتا ہے وہی جانتا ہے، زبان و لغت و الفاظ اس کے بیان سے انگشت بدنداں و حیران و قاصر ہوتے ہیں۔ احقر نے اس کو یوں تعبیر کیا ہے ؎ ------------------------------