درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
بھر کی زبانیں اس کو بیان کرنے سے قاصر ہوتی ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات غیرمحدود ہے۔ ان کے قُرب کی لذّت بھی غیر محدود ہے اور ہماری لغت محدود ہے تو غیر محدود لذّت محدود لغت میں کیسے آسکتی ہے۔ اور یہ تو ارواح کا مُعاملہ ہے جس کی لذّت کو کوئی کیا بیان کرے گا جب کہ اجسام بھی ایسی لذّت چکھتے ہیں جس کو الفاظ و لغت کے دائرے میں نہیں لایا جاسکتا ہے، اس کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے، زبان اس کو بیان کرنے سے قاصر ہوتی ہے مثلاً ایک شخص شامی کباب کھارہا ہے اور جھوم رہا ہے کہ آہا! بہت لذیذ کباب ہے۔ اب اگر کوئی اس سے کہے کہ بھائی! ذرا بتاؤ تو کہ اس کا کیا مزہ ہے؟ تو وہ کہے گا کہ بیان نہیں کرسکتا ذرا چکھ کے دیکھ لو۔ جب چکھو گے تب ہی سمجھو گے۔ اسی طرح بیاہ کی لذّت ہے اور اس پر ایک لطیفہ یاد آگیا کہ بیاہ کے معنیٰ میرے دل میں یہ آئے کہ بیاہ کے معنیٰ ہیں بے آہ۔ بیاہ سے پہلے وہ بیوی کے لیے آہ آہ کررہا تھا جب بیوی مل گئی تو اب بے آہ ہوگیا۔ یہ ہے تشریح اللغات۔ تو بیاہ کی لذّت کو کوئی الفاظ میں نہیں بیان کرسکتا ہے جیسے قصہ مشہور ہے کہ ایک دیہاتی لڑکی نے اپنی شادی شدہ سہیلی سے دیہاتی زبان میں پوچھا کہ سکھی ری سکھی بیاہ میں کیا مزہ آوے ہے تو اس نے کہا کہ جب تیرا بیاہ ہوجاوے گا تب تجھے پتا چل جاوے گا کہ بیاہ میں کیا مزہ ہے۔ تو جب مدرکاتِ اجسامیہ کا یہ عالم ہے کہ ان کو الفاظ میں تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھر مدرکاتِ روحانیہ کا کیا عالم ہوگا ان کو بدرجۂ اولیٰ الفاظ و لغت کے احاطہ میں لانا محال ہے یعنی جب جسمانی لذّتوں کو بیان نہیں کیا جاسکتا اور الفاظ و لغت سے ان کو تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو روحانی لذّتوں کو کیسے بیان کیا جاسکتا ہے۔ پس اللہ والوں کو جو اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہے اس کو حضرت خواجہ صاحب نے یوں فرمایا ہے کہ ؎ تم سا کوئی ہمدم کوئی دمساز نہیں ہے باتیں تو ہیں ہر دم مگر آواز نہیں ہے