درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ؎ یہ آیت اگرچہ جنّت کے لیے ہے کہ کوئی نفس نہیں جانتا جو آنکھوں کی ٹھنڈک وہ اہلِ جنّت کو پوشیدہ طور پر دیں گے لیکن جو شخص جنت کے راستے پر چلتا ہے جنت کی ٹھنڈک کا اثر دُنیا ہی میں محسوس کرنے لگتا ہے ؎ ترے تصور میں جانِ عالم مجھے یہ راحت پہنچ رہی ہے کہ جیسے مجھ تک نزول کرکے بہارِ جنت پہنچ رہی ہے جیسے کوئی دریا کی طرف جارہا ہے تو ہر قدم پر اس کو پانی کی ٹھنڈک ہواؤں میں محسوس ہونے لگتی ہے لہٰذا یہ تفسیر نہیں لطائفِ قرآن میں سے ہے کہ یہاں نکرہ تحت النفی واقع ہے جو فائدہ عموم کا دیتا ہے یعنی کوئی ایک نفس بھی نہیں جانتا کہ اللہ کے راستے میں جو آنکھوں کی ٹھنڈک، جو اطمینان اور جو لذّتِ قُرب اس کو عطا ہوتی ہے، ایک ولی بھی دوسرے ولی کے قُرب و اتصال مع الحق کی ماہیت اور حقیقت اور تفصیلی کیفیت سے واقف نہیں ہوتا کیوں کہ ہر ایک قلب کو ایک بے مثل اور منفرد لذّت عطا ہوتی ہے۔نکرہ تحت النفی سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قُرب کی لذّت جس دل کو عطا ہوتی ہے اس کی حلاوت کو وہ صرف محسوس کرتا ہے لیکن اگر وہ چاہے کہ اس لذّت کو بیان کردوں تو بیان نہیں کرسکتا۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں ؎ بوئے آں دلبر چوپرّاں می شود ایں زباں ہا جملہ حیراں می شود اس محبوبِ حقیقی کی خوشبو جب عرشِ اعظم سے نزول کرکے میرے پاس آتی ہے تو دنیا ------------------------------