درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
مولانا کا یہ کیسا پیارا شعر ہے جس کی شرح بھی کیسی پیاری مولانا کی برکت سے عطا ہورہی ہے۔ فانی صورتوں کا عشق عذاب ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جس شکل پر مررہے تھے، پاگل ہورہے تھے اس کے بعد جب وہی شکل بگڑ گئی، داڑھی آگئی اور مونچھیں بھی ایسی بڑی بڑی آگئیں کہ ہونٹ ہی چھپ گئے تو اس وقت کیوں اس شکل سے گدھے کی طرح بھاگتے ہو۔ حُمُرٌ مُّسۡتَنۡفِرَۃٌ فَرَّتۡ مِنۡ قَسۡوَرَۃٍ ؎ اس خاکہ کو میں نے اپنی رباعی میں پیش کیا ہے ؎ مونچھوں کے زیرِ سایہ لبِ یار چُھپ گئے داڑھی کے زیرِ سایہ وہ رُخسار چُھپ گئے بالوں کی سفیدی میں زُلفِ یار چُھپ گئے جتنے تھے یارِ حُسن وہ سب یار چُھپ گئے اس رُباعی کو میں نے جامعہ اشرفیہ لاہور کے تخت پر پڑھا تھا۔ بڑے بڑے عُلماء تھے، الحمدللہ! سارے عُلماء مست ہوگئے اور کہنے لگے کہ عجیب اصلاحی شعر ہے۔ تو معشوق کی اس حالت کو دیکھ کر عاشق کی ساری مستی نکل گئی۔ اس لیے شکلوں پر مرنے والے بین الاقوامی گدھے ہیں۔ واللہ کہتا ہوں اس سے بڑھ کر کوئی خبیث نہیں جو چند دن کے حُسنِ فانی پر اپنے کریم مولیٰ او راپنے خالق اور پالنے والے کو ناراض کرتا ہے۔ یہ شخص طبیعت کا خسیس اور کمینہ اور نہایت غیر شریف ہے۔ اگر اس میں حیا اور شرم ہوتی تو اپنے اللہ کو ناراض نہ کرتا۔ ملّا علی قاری محدثِ عظیم لکھتے ہیں کہ حیا کی تعریف ہے۔ حَقِیْقَۃُ الْحَیَاءِ اَنَّ مَوْلَاکَ لَا یَرَاکَ حَیْثُ نَھَاکَ؎ یعنی حیا کی حقیقت یہ ہے کہ تمہارا مولیٰ تم کو نافرمانی کی حالت میں نہ دیکھے تب سمجھ لو کہ یہ بندہ حیا اور شرم والا ہے۔ آج آپ ------------------------------