درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
حُسنِ فانی سے ترا آہ یہ شاداں ہونا یہی دلیل ہے ظالم ترا ناداں ہونا یہ دلیلِ قہر ہے۔ آہ! یہ مولانا روم ہیں، بہت بڑی شخصیت تھے، یہ شخص سلطان الاولیاء ہے اپنے زمانے کا۔ فرماتے ہیں کہ جس کو خُدا اپنی بارگاہ سے مردود کرنا چاہتا ہے اسے فانی شکلوں کے عشق میں مبتلا کردیا جاتا ہے ؎ نیست ہا را صورتِ ہستی دہد پھر وہ فانی شکلوں پر مرتا ہے کہ آہا کیسی شکل ہے۔ فانی صورتیں اسے عظیم الشان اور پایندہ حقیقت نظر آنے لگتی ہیں، باطل حق نظر آنے لگتا ہے۔ اس تقلیبِ ابصار سے حدیثِ پاک میں پناہ مانگی گئی ہے اور یہ دعا سکھائی گئی اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ۔؎ اے اللہ! ہمیں حق کا حق ہونا دکھادیجیے اور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرمائیے اور باطل کا باطل ہونا دکھادیجیے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیے۔ بس اللہ والے اس قہر سے محفوظ کیے جاتے ہیں لہٰذا حسینوں کے فرسٹ فلور پر نظر پڑتے ہی نظریں نیچی کرلیتے ہیں کیوں کہ حسین جسموں کے گراؤنڈ فلور کی گندگی ان کو مستحضر رہتی ہے کہ اندر سب پیشاب پاخانہ بھرا ہے اور اوپر چاندی کا ورق ہے۔ اللہ کی نافرمانی پیشاب پاخانہ سے بھی بدتر چیز ہے۔ تو جب کسی فانی حسین شکل پر نظر پڑتے ہی دل میں مستی آئے تو فوراً نظر ہٹالو اور اس مستی سے پناہ مانگو کہ یہ عذاب کی مستی ہے۔ یہ وہی مستی ہے جس پر یہ آیت نازل ہوئی: اِنَّہُمۡ لَفِیۡ سَکۡرَتِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ؎ ترجمہ: اور وہ (قومِ لوط والے) اپنے نشہ میں مست ہورہے تھے۔ ------------------------------