درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
کوئی وصیت بھی کردے تو مرے ہوئے جسم کو اللہ قبول نہیں کریں گے۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ جیتے جی اللہ پر فدا ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ زندگی ان پر فدا کردو لہٰذا جتنی اچھی طاقت ہو اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب ملےگا اور خاص طور پر جوانی کو فدا کرنے پر اللہ زیادہ خوش ہوجائے گا کہ یہ جوانی اور طاقت کے باوجود ہم پر فدا ہواہے۔ ایک کمزور بڈھا بکرا ہو جس کے پیر کانپ رہے ہوں تو بتاؤاس کی قُربانی کیسی ہوگی؟ پوچھ لو عُلماء سے۔ جس کی جتنی طاقت ہے اللہ پر فدا ہوجائے ورنہ زیادہ کمزور ہوجاؤ گے تو تمہاری قربانی بھی کمزور ہوجائے گی اور روز بروز ہم لوگ کمزوری کی طرف جارہے ہیں، روز بروز ہم بُڈھے ہوتے جارہے ہیں لہٰذا کمزور جان فدا کرنے کا انتظار مت کرو تگڑی جان اللہ پر دے دو جس حالت میں ہو دیر نہ کرو اور اس میں خواہ کتنا ہی غم ہو اس کو برداشت کرو۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں کہ اس مُجاہدے میں اللہ آدھی جان لیتا ہے لیکن اس کے بدلے میں وہ کریم مالک سینکڑوں جان عطا کرتا ہے، اپنے قُرب کی ایسی لذّت عطا کرتا ہے جس کو ابھی تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس کے برعکس جو شخص مُجاہدے سے جان چراتا ہے اللہ کی نافرمانی پر جری ہوتا ہے مبتلائے فتنہ کردیا جاتا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں۔ از شرابِ قہر چوں مستی دہد نیست ہارا صورتِ ہستی دہد اللہ تعالیٰ جس پر اس کے طغیان اور سرکشی کے سبب عذاب نازل کرنا چاہتا ہے تو اس کو اپنے قہر کی شراب پلادیتا ہے۔ جس کوخُدا قہر و عذاب کے شراب کی مستی دیتا ہے تو وہ فانی معشوقوں پر مرتا ہے۔ کہتا ہے:ہائے کیسا نمک ہے، کیسا چمک دار چہرہ ہے، ناک اُٹھی ہوئی ہے، پتلے پتلے ہونٹ مثل گُلاب کی پنکھڑی کے ہیں، آنکھیں تو ایسی ہیں کہ ان کو دیکھ کر ہرن کی آنکھیں بھی شرما جائیں، یہ بدمستیاں دلیل ہیں کہ یہ شخص خُدائے تعالیٰ کے قہر میں مبتلا ہے۔ میرا شعر ہے ؎