درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
حرام لذّت جس قلب میں در آمد ہوگی وہ قلب تجلیاتِ الٰہیہ سے متجلی نہیں ہوسکتا۔ فسق اور ولایت جمع نہیں ہوسکتیں۔ جو متقی نہیں ہوتا اسے ولی نہیں کہتے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں: دیکھو شیخ کے الفاظ نوٹ کرنے سے یا پڑھنے سے یا نقل کرنے سے ثابت نہیں ہوتا کہ تم صاحب نسبت بھی ہو۔ اب دلیل کیسی پیش کرتے ہیں ؎ لحنِ مرغاں را اگر واقف شوی اگر تم نے مرغانِ چمن اور پرندوں کی آواز کی نقل بھی کرلی ؎ برضمیرِ مرغ کے عارف شوی لیکن اس مُرغ کے دل میں جو مضمون ہے اس کی معرفت تم کو کہاں سے حاصل ہوگی؟ مُرغ کے ضمیر اور اس کے قلب میں جو مفہوم ہے اس کو تم نہیں سمجھ سکتے ؎ گر بیا موزی صفیرِ بلبلے تُوچہ دانی کوچہ گوید باگُلے اگر بُلبل کی سیٹی اور آواز کی تم نے مشق بھی کرلی اور ویسی ہی سیٹی مارنے لگے جیسے بلبل کی ہوتی ہے لیکن تمہیں کیا پتا کہ بُلبل پھول سے کیا گفتگو کررہا ہے؟ پس جو لوگ اہل اللہ کے ظاہری الفاظ نقل کرکے لوگوں پر اپنی بزرگی کا رعب جماتے ہیں لیکن کسی اللہ والے سے تعلق کرکے راہِ سلوک طے نہیں کرتے ان کو کیا معلوم کہ اہل اللہ کے باطن کو کیا نعمت حاصل ہوتی ہے،محض نقلِ الفاظ سے ان کے ضمیر اور قلبی احوال و مقامات کی ان کو خبر نہیں ہوسکتی۔ اللہ والوں کی جانوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو ربطِ خفی اور اتصال خاص ہے اس کو غیر عارف کیا جان سکتا ہے۔ اسی کو خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ ہم تم ہی بس آگاہ ہیں اس ربطِ خفی سے معلوم کسی اور کو یہ راز نہیں ہے پس الفاظ اہل اللہ کی زبان پر ہوتے ہیں لیکن معانی دل میں ہوتے ہیں لہٰذا جو جعلی پیر اور نقلی درویش اولیاء اللہ کے اقوال و ملفوظات نقل کرکے دنیا بٹورنے کے لیے اپنی مجالس