درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
کی صحبت سے جب دل میں نور آئے گا تو وہ تمہاری نار شہوت کو ٹھنڈا کردے گا اور آگے کے مصرع میں اس دعویٰ کی دلیل بھی ہے ؎ نورِ ابراہیم را ساز اوستا فرماتے ہیں اے استاد! دیکھیے یہاں مولانا نے ہم سب کو استاذ کہا اور تعلیم دے دی کہ استاد میں ایسی شفقت ہونی چاہیے کہ کبھی دلجوئی کے لیے شاگردوں کو بھی استاذ کہہ دے۔ اگر باپ بیٹے سے کہہ دے کہ بابا! میری بات مان لے تو بیٹے کو مارے شرم کے ڈوب جانا چاہیے اور ایسے باپ پر فدا ہوجانا چاہیے۔ تو آہ! مولانا رومی فرمارہے ہیں کہ اے استادو! حضرت ابراہیم علیہ السلام والا نور حاصل کرو کہ ان کے نور کی وجہ سے نمبرود کی آگ بجھ گئی تھی۔ تمہارا نفس بھی نمرود سے کم نہیں ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کا نور دل میں لاؤ پھر ان شاء اللہ تمہارے نفس کی آگ بھی بجھ جائے گی اور تمہیں اتنی ٹھنڈک ملے گی کہ جو تمہارے پاس بیٹھے گا وہ بھی ٹھنڈک پاجائے گا۔ بُری بُری خواہشات سے جو گرم رہتے ہیں وہ بھی آکر اللہ والوں کے پاس ٹھنڈک پا جاتے ہیں ؎ لحنِ مرغاں را اگر واقف شوی برضمیرِ مرغ کے عارف شوی ارشاد فرمایا کہ اس شعر میں مولانا الفاظ کے چوروں کو فرمارہے ہیں جو اللہ والوں کے الفاظ چُرا کر اپنی پیری چمکاتے ہیں اور دکھلاتے ہیں کہ دیکھو میں کتنا بڑا عارف ہوں اور مجھے کتنے ملفوظات یاد ہیں اور اس کےذریعہ سے دنیا اینٹھ رہا ہے اور اس کو کوئی حق نہیں برتری کا کیوں کہ خالی نام رٹنے سے اللہ نہیں ملتا، اس کے پاس اسم ہے لیکن مُسمّٰی سے دور ہے۔ ایسے ہی اس جامع الملفوظات کا حال ہے، جو شیخ کے پاس ہر وقت رہتا ہے، ملفوظ نوٹ کرتا ہے وہ گویا مٹھائیوں کے نام نوٹ کررہا ہے جب عمل اور تقویٰ اختیار کرے گا، اللہ کے راستے میں غم اُٹھائے گا تب اللہ کو پائے گا۔ یاد رکھو کسی کا ساتھ رہنا دلیل نہیں ہے کہ یہ شخص ولی اللہ بھی ہوگیا اور اپنے شیخ کے الفاظ نقل کرنے سے بھی ولایت ثابت نہیں ہوتی۔ ولایت کا مدار تقویٰ پر ہے۔ جو شخص تقویٰ اختیار نہیں کرتا،