درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
گرم کرتے ہیں وہ ان معانی کو کہاں سے لائیں گےجو اللہ والوں کےدلوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں اس کی مثال یہ ہے جیسے کوئی اپنے محبوب دوست سے بات کررہا ہوتو الفاظ اس محبت کے ترجمان ہیں لیکن جو محبت اس کے دل میں ہے اس کا ادراک وہ شخص نہیں کرسکتا جس کے دل میں محبت نہ ہو اور اُن الفاظ کورٹ لے اس کی زبان پر تو الفاظ ہوں گے لیکن دل میں محبت کی وہ کیفیت نہ ہوگی جو ایک محب اپنے دوست کے لیے رکھتا ہے۔ لہٰذا دنیا دار، کمینے اور نقلی فقیروں کی طرح اہل اللہ کے حروف و الفاظ چُرا کر مخلوق کو اپنا گرویدہ نہ بناؤ بلکہ اولیاء اللہ کی صحبت میں جاکر دل میں وہ محبت حاصل کرو جو ان اولیاء کے دلوں میں ہے پھر الفاظ زبان پر ہوں گے اور معانی دل میں ہوں گے جس کی دوسروں کو خبر بھی نہ ہوگی لیکن ان الفاظ میں ایسا نور ہوگا کہ دوسرے بھی اللہ والے ہوجائیں گے۔ مولانا رومی اللہ والوں کی شان میں فرماتے ہیں ؎ شیخ نورانی زرہ آگہ کُنَد نور را بالفظہا ہمرہ کُنَد اللہ والے صاحبِ نور ہوتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم کی اتباع کی برکت سے ان کا دل نورانی ہوجاتا ہے لہٰذا وہ اپنے ارشاد سے راہِ سُنّت سے باخبر بھی کرتے ہیں اور اپنے نور باطن کو اپنے الفاظ کے ہمراہ کردیتے ہیں جس کی برکت سے دوسروں کو بھی ہدایت ہوتی ہے اور اللہ کا راستہ نہ صرف آسان بلکہ لذیذ ہوجاتا ہے۔