درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
وہ شاہِ دو جہاں جس دل میں آئے مزے دونوں جہاں سے بڑھ کے پائے اور دلیل کیا ہے؟ دونوں جہاں کی لذّت کو اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے تو خالقِ لذّات ِ دو جہان جس دل میں اپنی تجلیاتِ خاصہ سے متجلی ہوگا اس کے دل کے عالم کا کیا عالم ہوگا سارا عالم اس کو نہیں سمجھ سکتا، مدرسوں میں دین کی مٹھائیوں کی فہرست پڑھنے والے بھی نہیں سمجھ سکتے اگرچہ وہ اوّل نمبر پاس بھی ہوجائیں فہرست کا امتحان دینے میں۔ مولانا گنگوہی رحمۃُ اللہ علیہ سے جب پوچھا گیا کہ آپ حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃُ اللہ علیہ کی خدمت میں کیوں گئے مرید ہونے جب کہ آپ بُخاری شریف پڑھارہے ہیں۔ سمر قند، بُخارا اور تاشقند سے طلباءپڑھنے آرہے ہیں، سارے عالم میں آپ کا ڈنکا پٹا ہوا ہے اور حاجی صاحب تو عالم بھی نہیں ہیں۔ تو فرمایا کہ دین کی مٹھائیوں کی جو فہرست میں نے مدرسے میں پڑھی تھی وہ مٹھائیاں مجھے حاجی صاحب کے ہاں کھانے کو مل گئیں۔ فرمایا کہ حاجی صاحب سب مٹھائیاں کھاتے تھے اگرچہ نام معلوم نہیں تھا اور ہم لوگوں کو نام معلوم ہے مُسمّٰی ہمارے پاس نہیں ہے۔ ایک گُلاب جامن گُلاب جامن رٹ رہا ہے اور اوّل نمبر پاس ہوگیا اس کے اجزا بتاکر مگر مُنہ میں گُلاب جامن نہیں ہے تو اسم کے رٹنے سے مسمّٰی کا ملنا لازم نہیں ہے۔ مسمّٰی ان سے ملتا ہے جو مسمّٰی والے ہیں، جو صاحبِ نسبت ہیں جو اللہ والے ہیں۔ میرے شیخ فرماتے تھے مٹھائی ملتی ہے مٹھائی والے سے، کپڑا ملتا ہے کپڑے والے سے، امرود ملتا ہے امرود والوں سے، آم ملتا ہے آم والوں سے اور کباب ملتا ہے کباب والوں سے تو اللہ ملتا ہے اللہ والو ں سے۔ ابھی تو مولانا کے ایک ہی مصرع کی شرح ہوئی۔ پورا شعر یہ ہے ؎ نارِ شہوت چہ کُشَد نورِ خُدا نورِ ابراہیم را ساز اوستا سینما، وی سی آر، اور ٹیڈیوں کو دیکھنے سے تمہارے قلب کو سکون نہیں ملے گا، گناہ کرنے سے شہوت کی آگ نہیں بجھے گی۔ گُناہ سے بچنے سے، اللہ کے ذکر سے، اللہ والوں