درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ہوتی ایسے محروم دل تکبّر میں مبتلا رہتے ہیں اور جن کے قلب کو اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا پھل عطا کرتا ہے ان میں تواضع آجاتی ہے اور جب دل میں اللہ کا نور آئے گا تو ایک دم جنّت محسوس کرو گے، جب خالقِ جنت کو پاجاؤ گے تو جنّت کیا چیز ہے اس کے سامنے؟ میرا شعر ہے ؎ مانا کہ میر گلشنِ جنت تو دور ہے عارف ہے دل میں خالقِ جنّت لیے ہوئے اگرچہ ابھی جنّت ادھار ہے لیکن اللہ والے خالقِ جنّت کو نقد پا جاتے ہیں،جس کو مُلّا علی قاری نے شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے: وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ؎ جو اپنے اللہ سے ڈرے ان کودو جنّت اللہ دے گا۔ اس آیت کی تفسیر بعض صوفیا نے یہ کی ہے کہ جَنَّۃٌ فِی الدُّنْیَا بِالْحُضُوْرِ مَعَ الْمَوْلٰی دنیا کی جنّت یہ ہے کہ ان کے قلب کو اللہ تعالیٰ کا قُرب ہر وقت مست رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بجمیع صفاتہٖ اپنی تجلیاتِ خاصہ سے ان کے قلب میں متجلّی رہتا ہے۔ وہ معیتِ خاصہ سے مشرف رہتے ہیں، خواجہ صاحب کا شعر ہے ؎ پھرتا ہوں دل میں یار کو مہماں کیے ہوئے روئے زمیں کو کوچۂ جاناں کیے ہوئے اور دوسری جنّت کیاہے جَنَّۃٌ فِی الْعُقْبٰی بِلِقَاءِ الْمَوْلٰی؎ اور دوسری جنّت آخرت میں ملے گی جہاں اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص حضوری اللہ والوں کو دنیا ہی میں نصیب رہتی ہے جس کی وجہ سے دونوں جہاں سے زیادہ مزے میں رہتے ہیں سوائے دیدارِ الٰہی کے جو آخرت میں نصیب ہوگا جس کا دونوں جہاں میں کوئی مثل نہیں لیکن اس نعمتِ دیدارِ الٰہی کے علاوہ دونوں جہاں کی نعمتوں سے زیادہ لذّت اللہ والے دنیا ہی میں پاجاتے ہیں۔ اختر کا شعر ہے جو آپ سے خطاب کررہا ہے ؎ ------------------------------