درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
بس بس اللہ پیٹ بھرگیا۔ علامہ قسطلانی رحمۃُاللہ علیہ شرح بُخاری میں لکھتے ہیں کہ اللہ تو جسم سے پاک ہے وہ قدم کیسے رکھیں گے تو فرماتے ہیں کہ قدم سے مراد اللہ کی خاص تجلی ہے، خاص نور ہے۔ اب مولانا فرماتے ہیں: گناہوں کے تقاضوں کی آگ کا علاج گناہوں کا ارتکاب نہیں ہے، نارِ شہوت کا علاج شہوت کو پورا کرنا نہیں ہے ، گناہ کرنے کے خبیث ذوق کا علاج گُناہ کرتے رہنا نہیں ہے۔ یاد رکھو کتنے لوگ گُناہ کرتے کرتے مرگئے لیکن گُناہ کا تقاضا ختم نہیں ہوا اور اسی نافرمانی کی حالت میں بُری موت مرے۔ لہٰذا گناہوں سے بچنے کا علاج صرف اللہ سے تعلق ہے کہ اللہ کے نور اور تجلی کو دل میں لاؤ لہٰذا اللہ کا ذکر کرو، اللہ والوں کے پاس رہو، جب قلب میں نور آئے گا تو نفس کا پیٹ بھرجائے گا پھر گُناہ کرنے کو دل ہی نہ چاہے گا اور اگر چاہے گا بھی تو لگام کی بہت معمولی اور ہلکی سی جنبش سے نفس کا مہذب گھوڑا رُک جائے گا۔ بس دل میں جب اللہ کا نور آئے گا تب شہوت کی آگ بجھے گی۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ نارِ شہوت چہ کُشَد نورِ خدا مثنوی کا وزن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ہے تو مولانا رومی کی کرامت دیکھیے۔ اتنی چھوٹی سی بحر میں سوال بھی ہے اور جواب بھی۔ سوال کیا ہے؟ نارِ شہوت چہ کُشَد؟ یہ سوال ہے فاعلاتن فاعلاتن میں کہ نارِ شہوت کو کیا چیز بجھاسکتی ہے؟ ابھی مصرعہ پورا نہیں ہوا فاعلن کی جگہ باقی ہے۔ اب مولانا رومی کی کرامت دیکھیے کہ فاعلن کی جو جگہ تھی اسی میں جواب دے دیا نوُرِ خُدا۔ یعنی اللہ کا نور جب دل میں آئے گا تو تمہارے گناہوں کے تقاضے ایک دم بجھ جائیں گے کیوں کہ نورکا مزا ج ٹھنڈا ہوتا ہے اور نار میں تکبر اوراکڑ ہوتی ہے۔ نار کا الف ہمیشہ کھڑا رہتا اور نور میں واؤ لگنے سے وہ جُھکا رہتا ہے جس کے قلب میں نور آئے گا وہ واؤ بن جائےگا، اس میں تواضع کی شان پیدا ہوجائے گی جیسے کہ پھل دار شاخ جُھک جاتی ہے ؎ نہد شاخِ پُر میوہ سر بَرز میں اور جس شاخ میں پھل نہیں ہوتااکڑی رہتی ہے۔ تو جس کے دل میں اللہ کی محبت نہیں