درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ہیں کہ اس بے ایمان نے فرعون سے کہا کہ اگر تم اسلام لاتے ہو تو پہلے مجھے قتل کردو کیوں کہ میں یہ نہیں دیکھ سکتا کہ آسمان زمین ہوجائے اور خُدا بندہ ہوجائے۔ ہامان نے فرعون کے نفس کو حُبِّ جاہ کی غذا دی جس سے فرعون کا نفس پھول کر کُپّا ہوگیااور وہ پہلے ہی طغیان و سرکشی و تکبر میں مبتلاتھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوتِ اسلام سے اس کے نفس کی گرفت کچھ ڈھیلی ہوئی تھی کہ حُبِّ جاہ کی غذا ملتے ہی اس کا نفس پھر شیر ہوگیا اور پھر اس کو اپنا پرانا کُفر یاد آگیا جس نے اس کو برباد کردیا۔ اسی لیے مولانا فرماتے ہیں کہ نفس فرعون ہے اس کو گُناہوں کی غذا سے سیر مت کرو۔ فرعون کو جاہ نے مار دیا اگر تم نے حسینوں کو دیکھا تو نفس کو باہ کی غذا مل جائے گی اور گُناہوں میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوجاؤ گے کیوں کہ نفس گناہوں سے سیر نہیں ہوتا۔ اس لیے جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ قیامت کے دن جہنم سے فرمائیں گے کہ کیا تیرا پیٹ بھر گیا ہَلِ امۡتَلَاۡتِ تو جہنم کہے گی کہ ہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ اللہ میاں! ابھی تو پیٹ نہیں بھرا مجھے اور مال چاہیے تو مولانا رومی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو مزاج جہنم کا ہے وہی نفس کا ہے۔ گُناہ سبب ہے جہنم کا اور سبب اور مُسبَّب کا مزاج ایک ہوتا ہے۔ لہٰذا جیسے جہنم کا پیٹ گناہ گاروں سے نہیں بھرا تو نفس کا پیٹ بھی گناہوں سے نہیں بھرتا۔ نفس ایک لاکھ گُناہ کرکے بھی کہے گا ہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ اور لاؤ یہاں تک کہ ساری دنیا کے حسینوں کو اگر کوئی دکھادے اور صرف ایک حسین باقی رہ جائے تو حکیمُ الامّت کا ارشاد ہے کہ بدنظری کرنے والے کے کان میں اتنا کہہ دو کہ ساری دنیا کے حسین میں نے تم کو دکھادیے، بس ایک باقی ہے تو نفس کہے گا وہ بھی دکھادو۔ یہ ہے نفس کا مزاج۔ اس کا علاج وہی ہوگا جو جہنم کا ہوگا۔ جو ہیڈ آفس کا علاج ہوتا ہے وہی برانچ کا ہوتا ہے، مرکز کا علاج اور شاخوں کا علاج ایک ہوتا ہے تو جب جہنم کہے گی ہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ کہ اےا للہ! میرا پیٹ نہیں بھرا اور گناہ گار سب ختم ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کسی بے گناہ مخلوق کو جہنم میں تھوڑی ڈالیں گے بلکہ اپنا قدم رکھ دیں گے فَیَضَعُ قَدَمَہٗ؎جب اللہ اپنا قدم رکھے گا تو جہنم کہے گی قط قط وفی روایۃ قط قط قط بس ------------------------------