درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ہیں۔ جو لاشوں پر مرتا ہے وہ خود لاشیٔ ہوتا ہے اگر یہ شیٔ ہوتا تو لاشیٔ پر نہ مرتا۔ اس وقت بندہ نہایت حقیر و ذلیل ہوتا ہے جب وہ اپنے لمحاتِ حیات کو خالقِ حیات کی نافرمانی میں استعمال کرتا ہے، مرنے والی لاشوں کی خاطر اپنے مالک او ر خالق کو ناراض کرتا ہے۔ غیر اللہ پر فدا ہونا بندے کا بندہ بننا ہے، فقیروں کا فقیر بننا ہے کتنا بڑا جُرم ہے کہ بندے کا بندہ بن گئے جس کا حُسن خود اس کے اختیار میں نہیں۔ اگر لقوہ ہوگیا، فالج گر گیا، پائیریا ہوگیا یا مرگیا تو پھر کہاں جاؤ گے دل کو بہلانے۔ احقر کے دو شعر ہیں جس میں، میں نے میر کو مُخاطب کیا ہے، عجیب بات ہے کہ میر ہی کا نام میرے شعروں میں فٹ ہوتا ہے ؎ حسینوں کا جغرافیہ مؔیر بدلا کہاں جاؤ گے اپنی تاریخ لے کر یہ عالم نہ ہوگا تو پھر کیا کرو گے زُحل مشتری اور مریخ لے کر مؤمن کی شان کے خلاف ہے کہ اللہ کو بھول جائے۔ حضرت حکیمُ الامّت مولانا تھانوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تھانہ بھون میں ایک بچہ تھا اس کو لڈّو سے عشق تھا۔ کسی نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے۔ کہا عبدالرحمٰن لڈّو اور ابا کا نام ؟ محمود خان لڈّو۔ کہاں جارہے ہو دادا ابا کے لڈّو۔ ہر بات میں لڈّو کہنا اس کے لیے لازم تھا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ مسلمان کی بھی یہی شان ہے کہ ہر وقت مولیٰ کو یاد کرے۔ کوئی نعمت ملی تو کہا اَلْحَمْدُلِلہ، کوئی تعجب کی بات دیکھی تو کہا سُبْحَانَ اللہ، کوئی بُری چیز نظر آئی تو اَللہُ اَکْبَرْ، کوئی غم آیا تو اِنَّالِلہِ ؎ ان سے ملنے کو بہانہ چاہیے شریعت تو ہمیں سراپا عشق بناتی ہے اللہ پر فدا ہونا سکھاتی ہے کہ ہر وقت اپنے مالک کو یاد رکھو۔لہٰذا مولانا رومی فرماتے ہیں کہ دونوں عالم میں جب اللہ تعالیٰ کی ذات لَامِثْلَ لَہٗ ہے، کوئی اس کا ہمسر نہیں، اس جیسا کوئی محبوب نہیں تو ان کو چھوڑ کر فانی حسینوں پر جان دینا انتہائی ظلم اور گدھا پن ہے جس پر اگر خون کے آنسو بہاکر تلافی کرو گے تو حق ادا نہیں