درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
رکھتے ہیں، بغیر دیکھے ان پر نیندیں قربان کرتے ہیں اور اپنی جانیں فدا کرتے ہیں ؎ درد و عالم ایں چنیں دلبر کہ دید دونوں عالم میں میں ایسا محبوب کوئی دکھائے کہ وہ نظر نہ آئے اور بغیر دیکھے جس پر عشّاق اپنی گردنیں کٹارہے ہیں، بغیر دیکھے جس کے لیے آدھی رات کو اُٹھ کر سخت سردی میں وضو کررہے ہیں اور بغیر دیکھے جس کے سامنے سجدے میں سر رکھ رہے ہیں۔ دونوں عالم میں ذرا کوئی ایسا محبوب دکھائے تو سوائے اللہ کے۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ میں اُن کے سوا کس پہ فدا ہوں یہ بتادے لا مجھ کو دکھا اُن کی طرح کوئی اگر ہے اس کا کوئی ہمسر، کوئی برابری کرنے والا نہیں، اس کی ذات وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ اور وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ ہے۔ دونوں عالم میں کون ایسا دلبر ہے کہ بغیر دیکھے جس پر ستّر صحابہ نے اپنی جانیں قربان کردیں اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کا جنازہ پڑھایا تو ہر جنازہ بزبانِ حال اس شعر کا مصداق تھا ؎ اُن کے کوچےسے لے چل جنازہ مرا جان دی میں نے جن کی خوشی کے لیے بے خودی چاہیے بندگی کے لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اصحاب کی جدائی کا کتنا غم ہوا ہوگا۔ اسلام ہم تک آسانی سے نہیں پہنچا، صحابہ نے اپنی گردنیں دی ہیں، اپنا خونِ شہادت بہایا اور ہم تک اسلام پہنچایا۔ حکیمُ الامّت فرماتے ہیں کہ اسلام نام ہے اللہ سے عشق کا کہ عاشقانہ عبادت کرو۔ عشق کا صحیح استعمال اللہ پر فدا ہونا ہے، صحابہ خُدا پر فدا ہوگئے اور ہمارے ایمان کا آج یہ حال ہے کہ غضِّ بصر کا حکم ہم کو بھاری معلوم ہوتا ہے۔ آہ! انہوں نے جانیں دیں اور ہم اللہ کے لیے ایک نظر نہیں بچاسکتے، جانوروں کی طرح حسینوں کو دیکھتے رہتے ہیں اور ہم کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ مُردوں پر، مرنے والی لاشوں پر ہم اپنے ایمان کو ضایع کررہے