درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
حاصل اور جوس پلادیتے ہیں ورنہ اگر یہ نہ ہوتا اور اللہ تعالیٰ ان کو نعم البدل اور عظیم الشان نعمت نہ عطا فرماتے تو اولیاء اللہ فروخت ہوجاتے لیکن جن کے دل اللہ کی محبت سے بریاں ہیں وہ دنیا کی کسی نعمت سے نہیں بکتے۔یہی دلیل ہے کہ ان کے قلب کو کوئی ایسی بڑی نعمت حاصل ہے جس سے تمام نعمائے کائنات ان کی نگاہوں میں بے قدر ہوگئیں۔ یہ اللہ کی محبت کا انعام ہے اسی لیے مولانا نے ایسے دلوں کو مبارک باد دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا جلا بھنا دل کیسے نصیب ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنی حیات کو خُدا تعالیٰ پر فدا کررہے ہیں جب ہماری حیات ان اللہ والوں کی حیات کے ساتھ گزرے گی جو اللہ پر ہر وقت فدا ہورہے ہیں تو ہم کو آپ کے فداکاری کی اداکاری نصیب ہوجائے گی یعنی اللہ تعالیٰ پر فدا ہونا آجائے گا۔ مثل مشہور ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ لاتا ہے۔جب ایک بے جان چیز میں یہ اثر ہے کہ اس کی صحبت دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے تو کیا اللہ والوں کی صحبت میں یہ اثر نہ ہوگا کہ بے وفا، وفادار ہوجائیں اور محروم جانیں اللہ کی محبت کے درد سے آشنا ہوجائیں۔ امام غزالی رحمۃُاللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اِنَّ الطَّبَائِعَ تَسْرِقُ مِنْ طِبَاعٍ اخُرٰی یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی طبیعتوں کو ایسا بنایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اخلاق کو چراتی ہیں جیسی صحبت ہوگی ویسا ہی اس کا اثر ہوتا ہے۔ ایک بے نمازی نمازیوں کی صحبت میں رہ کر نمازی بن جاتاہے اسی طرح اس کا عکس ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے، اللہ اپنا دردِ محبت ہم سب کو نصیب فرمادے اور مرنے والی اور فنا ہونے والی حسین لاشوں کے ڈسٹمپر اور رنگ و روغن سے ہمارے قلب و جان کو پاک فرماکر اپنی محبت ہم سب کو نصیب فرمادے، آمین۔ وَصَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ