درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
طرف نہیں مُقضی کی طرف ہے یعنی بُرائی کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف نہیں ہے کیوں کہ حق تعالیٰ کا کوئی فیصلہ بُرا نہیں ہوسکتا لیکن جس کے خلاف وہ فیصلہ ہے اس کے حق میں بُرا ہے جیسے جج کسی مجرم کو پھانسی کی سزا دیتا ہے تو جج کا فیصلہ بُرا نہیں، یہاں بُرائی کی نسبت جج کی طرف نہیں کی جائے گی کیوں کہ اس نے تو انصاف کیا ہے لیکن جس مجرم کے خلاف یہ فیصلہ ہوا ہے اس کے حق میں بُرا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں، وہ خالقِ خیر و شر ہے جس طرح تخلیق ِ خیر حکمت سے خالی نہیں اسی طرح تخلیقِ شر بھی حکمت سے خالی نہیں مثلاً ظلمت سے نور کی، کُفر سے ایمان کی معرفت ہوتی ہے وغیرہ لہٰذااللہ تعالیٰ کے کسی فعل کی طرف سوء کی نسبت نہیں کی جاسکتی۔ اسی کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ کُفر ہم نسبت بہ خالق حکمت است چوں بما نسبت کُنی کُفر آفت است کُفر کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی عینِ حکمت ہے لیکن جب کُفر کی نسبت بندہ کی طرف ہوتی ہے اور بندہ اس کو اختیار کرتا ہے تو کُفر اس کے لیے آفت و بدنصیبی و شقاوت ہے۔ معلوم ہوا کہ جزا و سزا کسب پر ہے جو ایمان کو کسب کرتا ہے اچھی جزا پاتا ہے اور جو کُفر کا مرتکب ہوتا ہے سزا پاتا ہے۔ اس کی مثال میرے شیخ شا ہ ابرارُالحق صاحب دامت برکاتہم نے عجیب دی کہ جیسے حکومت نے بجلی بنائی اور بتادیا کہ فلاں فلاں سوئچ کو دبانا لیکن فلاں سوئچ کو نہ دبانا۔ پھر اگر کوئی ممنوعہ سوئچ کو دباتا ہے تو پکڑا جاتا ہے کہ تم نے وہ سوئچ دبایا کیوں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ خالقِ خیر و شر ہیں اور حکم دے دیا کہ خیر کو اختیار کرو اور شر سے بچو پھر اگر کوئی شر اختیار کرتا ہے تو اسی پر مؤاخذہ اور پکڑ ہے کہ جب ہم نے منع کردیا تھا تو تم نے اسے کیوں اختیار کیا۔ اسی کو حضرت حکیمُ الامّت رحمۃُاللہ علیہ نے فرمایا کہ سوء کی نسبت قاضی کی طرف نہیں مقضی کی طرف ہے۔ اور حدیثِ پاک میں سوئے قضا سے پناہ کی درخواست سے معلوم ہوا کہ اگر سوئے قضا کا حسنِ قضا سے تبدیل ہو نامحال ہوتا یا منشائے الٰہی کے خلاف ہوتا تو حضور