Deobandi Books

درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ

ہم نوٹ :

246 - 258
طرح کی نعمتیں رکھی ہوئی ہیں، سموسے بھی رکھے ہیں، کباب بھی ہے، بریانی بھی ہے۔ اس نے جلدی جلدی سب کچھ کھایا اور نرم نرم گدوں پر سوگیا۔ جب اُٹھا تو چوکیداروں سے پوچھا کہ بھئی! یہ کس کا مکان ہے، کون ایسا کریم اور مہربان ہے جس نے یہ انتظامات کیے ہیں۔ تو یہ آدمی شریف ہے کیوں کہ  محسن کو تلاش کرنا شرافت کا تقاضا ہے اور ایک آدمی خُوب کھاپی کر نعمتیں اُڑاکر آرام اٹھا کر سوجائے اور اُٹھ کر پوچھے بغیر چلا جائے کہ کون ایسا کریم ہے جس نے یہ انتظام کیا ہے تو بتائیے کہ وہ جانور ہے یا نہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا عینِ فطرت، عینِ شرافت اور عینِ عقل کا تقاضا ہے کہ جس نے یہ زمین بنائی ہمیں سورج اور چاند دیا، آسمان کا شامیانہ لگادیا اور شامیانہ بھی کتنا پیارا کہ جس پر سورج چاند ستاروں کا ڈیکوریشن لگادیا اور ڈیکوریشن کا بل بھی نہیں آتا تو اللہ تعالیٰ کے یہ انتظاماتِ ربوبیت کو دیکھ کر اللہ کو تلاش کرنا اور اللہ پر ایمان لانا عقلاً فرض ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے زمین وآسمان، چاند سورج، سمندر پہاڑ دیکھ کر اور ان نعمتوں سے استفادہ کرکے بھی اللہ کو تلاش نہیں کرتا وہ انتہائی کمینہ، غیر شریف اور جانور سے بدتر ہے۔ اسی لیے مولانا فرماتے ہیں کہ بہت مُبارک وہ دل ہے جو اللہ کی محبت میں بریاں ہورہا ہو اور بریاں ہونے کے کیا معنیٰ ہیں یعنی جس کو حسینوں سے نظر بچانے کی ہمّت اور توفیق حاصل ہے، جس کو اللہ پر مرنا نصیب ہے اس کو جینے کا مزہ ہے وہ کیا جانے جو مرتا نہیں اللہ پر وہ تو جانور ہے۔ جانور بھی پیٹ بھرلیتا ہے اور ہگ لیتا ہے، تمہارے ایکسپورٹ سے اس جانور کا ایکسپورٹ بھی زیادہ ہے، تمہارے امپورٹ سے اس کا امپورٹ بھی زیادہ ہے۔ کھانے پینے کا نام زندگی نہیں ہے۔ کھا پی کر مالک پر فدا ہونے کا نام زندگی ہے، جس نے کھلایا پلایا اس پر فدا ہوجاؤ یہ اصل زندگی ہے اور ایک عقلی دلیل اللہ نے میرے قلب کو عطا فرمائی کہ اگر حیات نہ ہو تو کیا دنیا میں کوئی مزہ لے سکتا ہے؟ کیا کھانے کا پینے کا شادی بیاہ   کا مُردے کو مزہ آسکتا ہے؟ معلوم ہوا کہ حیات جو ہے یہ ذریعۂ حصولِ لذاتِ کائنات ہے۔ تو پھر جو حیات خالقِ حیات اور خالقِ لذاتِ کائنات پر فدا ہوتی ہے تو کیا وہ خالقِ حیات اس حیات کو لذّتِ حیات نہ عطا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو ساری لذاتِ کائنات کا 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 ضروری تفصیل 4 1
3 قارئین ومحبین سے گزارش 4 1
4 عنوانات 5 1
5 بشارتِ عظمیٰ 7 1
6 عرضِ مرتّب 8 1
7 مجلسِ درسِ مثنوی 12 1
9 ۱۶؍شعبان المعظم ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۷؍دسمبر ۱۹۹۷؁ء بروز چہار شنبہ 18 1
10 ۱۵؍شعبانُ المعظم ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۶؍دسمبر ۱۹۹۷؁ء بروزِ سہ شنبہ (منگل) 12 1
11 ۲۱؍ شعبان المعظم ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۲۲؍دسمبر ۱۹۹۷؁ء بروز دوشنبہ 33 1
12 ۲۳؍شعبان المعظم ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۷؁ء بروز بُدھ 37 1
13 ۲۴؍ شعبان المعظم ۱۴۱۸؁ھ مطابق۲۵؍ دسمبر ۱۹۹۷؁ء بروز جمعرات 45 1
14 ۲۵؍ شعبان المعظم ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۲۶؍دسمبر ۱۹۹۷؁ء بروز جمعہ 52 1
15 ۲۶؍ شعبان المعظم ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۲۷؍دسمبر ۱۹۹۷؁ء بروز ہفتہ 56 1
16 ۲۷؍ شعبان المعظم ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۲۸؍ دسمبر ۱۹۹۷؁ء بروز اتوار 65 1
18 ۲۸ / شعبان المعظم ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۲۹ / دسمبر ۱۹۹۷؁ء بروز دوشنبہ بعدنماز فجر 73 1
19 ۲۹؍شعبان المعظم ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۳۰ ؍دسمبر ۱۹۹۷؁ء بروز سہ شنبہ (منگل) 77 1
20 ۲؍ رمضان المبارک ۱۴۱۸؁ھ بمطابق یکم جنوری ۱۹۹۸؁ء برو ز جمعرات 83 1
21 ۴؍رمضان المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۳؍جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز ہفتہ 102 1
22 ۷؍ رمضان المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۶؍ جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز سہ شنبہ 108 1
23 ۹؍ رمضان المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۸؍ جنوری ۱۹۹۸؁ء، بروز جمعرات 128 1
24 ۱۱؍ رمضان المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۰؍ جنوری ۱۹۹۸؁ء 143 1
25 ۱۲؍ رمضان المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۱؍جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز یکشنبہ (اتوار) 152 1
26 ۱۳؍ رمضان ُ المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۲؍جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز دو شنبہ 176 1
27 ۱۴؍ رمضانُ المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۳؍جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز منگل 188 1
28 ۱۵؍ رمضانُ المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۴؍جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز چہار شنبہ 200 1
29 ۱۶؍ رمضانُ المبارک ۱۴۱۸؁ھ بمطابق ۱۵؍ جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز جمعرات 208 1
30 ۱۸؍رمضانُ المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۷؍جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز ہفتہ 219 1
31 ۱۹؍ رمضانُ المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۸؍جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز اتوار 231 1
32 ۲۰؍ رمضانُ المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۱۹؍ جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز دوشنبہ 240 1
33 ۲۱؍رمضانُ المبارک ۱۴۱۸؁ھ مطابق ۲۰؍جنوری ۱۹۹۸؁ء بروز منگل 248 1
Flag Counter