درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مُبارک ہیں وہ آنکھیں جو اللہ کی یاد میں رو رہی ہیں کہ اے میرے مولیٰ! تو مجھے کہاں ملے گا ۔ مولانا رومی ان آنکھوں کو مُبارک باد دے رہے ہیں جو اللہ کی یاد میں رو رہی ہیں۔ مولانا نے دو ہی قسم کے لوگوں کو مبارک باد دی ہے ایک ان آنکھوں کو جو اللہ کی یاد میں رونے والی ہیں اور ایک اس دل کو جو اللہ کے عشق میں جل رہا ہے اور آنکھوں کا رونا یہ بھی ہے کہ جب کوئی نامحرم حسین شکل سامنے آجائے تو اس سے نظر ہٹاکر نابینابن جائے۔ میرا شعر ہے ؎ جب آگئے وہ سامنے نابینا بن گئے جب ہٹ گئے وہ سامنے سے بینا بن گئے جب وہ حسین شکل سامنے آگئی تو نظر ہٹاکر نابینا بن گئے اور جب وہ شکل واجب الاحتیاط ہٹ گئی تو ہم بینا بن گئے اور اللہ تو دیکھتا ہے کہ میرے بندے کی آنکھ میں روشنی موجود تھی لیکن پھر بھی میرے خوف سے اور میرے حکم سے یہ نابینا بن گیا، میرا بندہ کس قدر پاس کررہا ہے میرے حکم کا جب کہ یہ بھی سینے میں دل رکھتا ہے اور دل بھی عاشقانہ رکھتا ہے مگر میرے بندے کا قلب عاشقانہ تو ہے مگر مزاج فاسقانہ نہیں ہے، اپنے مزاجِ عاشقی کو میری بندگی کے دائرے میں رکھتا ہے فاسقی کے دائرے میں داخل نہیں ہونے دیتا تو کیا اس ادائے بندگی پر عطائے خواجگی نہیں ہوگی یعنی جب ہماری طرف سے اَدائے بندگی ہوگی تو اللہ کی طرف سے عطائے خواجگی ہوگی اور دل کو حلاوتِ ایمانی کی، اپنے قُرب کی وہ لذّت عطا فرمائیں گے کہ تمام لیلائیں اور جُملہ لذاتِ کائنات نگاہوں سے گر جائیں گی۔ اس کے برعکس بہت سی آنکھیں کسی معشوق کی یاد میں رو رہی ہیں۔ یہ آنسو گدھے کے پیشاب سے زیادہ بے قیمت ہیں کیوں کہ ان آنسوؤں کا تعلق غیر اللہ سے ہے، مرنے والی لاشوں سے ہے۔ ان آنسوؤں کی ریل کا آخری اسٹیشن گُناہ ہے۔ اسی کے متعلق میرا شعر ہے ؎ عشقِ بتاں کی منزلیں ختم ہیں سب گُناہ پر جس کی ہو انتہا غلط کیسے صحیح ہو ابتدا