درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
اپنی طبیعت سے پاگل ہوکر وہ اس کو بُری نظر سے دیکھے گا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر گناہِ کبیرہ کی کوشش کرے گا، اُس وقت خُدا کا خوف تو کیا انجامِ حُسن سے بھی وہ غافل ہوتا ہے، اس وقت اسے یہ بھی خیال نہیں آتا کہ ایک دن اس کا حُسن غائب ہوجائے گا بڑھاپا آجائے گا گال پچک جائیں گے، آنکھوں پر پونے گیارہ نمبر کا چشمہ لگ جائے گا دانت باہر آجائیں گے کمر جُھک جائے گی۔ یہ طبیعت کے غُلام اپنی طبیعت سے مجازی حُسن پر مرتے ہیں اور جب حُسن زائل ہوجاتا ہے تو اپنی طبیعت سے بھاگتے ہیں، اللہ کے خوف سے نہیں بھاگتے اس لیے محروم رہتےہیں اور اللہ کے قُرب کی ان کو ہوا بھی نہیں لگتی اور اہل اللہ کی کیا شان ہوتی ہے کہ حُسن کے عین عالمِ شباب میں جب کہ ان کی طبیعت میں بھی تقاضا شدید ہوتا ہے کہ ایک نظر اس کو دیکھ لوں لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے اپنی نظر کی حفاظت کرکے غم اُٹھاتے ہیں۔ اسی غم کی راہ سے انہیں خُدا ملتا ہے اور یہ بھی ایک دن کا نہیں ساری زندگی اللہ کے لیے غم اُٹھاتے ہیں اور اس غم میں اللہ ان کو وہ لذّت دیتا ہے جس کو اہلِ مزہ اور اہلِ عیش نہیں جان سکتے اور کیوں کہ ان کا مُجاہدہ مسلسلہ متواترہ ہے تو ان کے قلب پر تجلّیاتِ قُربِ الٰہیہ بھی متواترہ مسلسلہ وافرہ اور بازغہ نازل ہوتی ہیں۔ پس جس کا دل حق تعالیٰ کی تجلّیاتِ خاصہ سے متجلی ہو اس کے سامنے وسعتِ ہفت آسمان کیوں تنگ نہ ہوجائے گی۔ کہاں اللہ اور کہاں مخلوق۔ اسی کو مولانا نے ایک اور شعر میں فرمایا ؎ چرخ در گردش اسیرِ ہوشِ ماست بادہ در جوشش گدائے جوشِ ماست آسمان اپنی گردش میں میرے ہوش کا قیدی ہے اور شراب اپنی مستی میں میرے کیف ومستی کی گدا ہے۔ اے خوشا چشمے کہ آں گریانِ اوست اے ہمایوں دِل کہ آں بریان اوست