درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اہل اللہ کا جسم مثل کوہِ قاف کے زمین پر دھرا نظر آتا ہے لیکن ان کی روح ہمہ وقت عرشِ اعظم کا طواف کرتی ہے۔ مرتبۂ جسم میں تو وہ مخلوق کے ساتھ ہیں لیکن مرتبۂ روح میں وہ ہر وقت مقرب بارگاہِ حق ہیں پھر ان کی روح مقرب ہفت آسمان پر محیط کیوں نہ ہوگی اسی کو مولانا نے دوسری جگہ بیان فرمایا ؎ در فراخِ عرصۂ آں پاک جاں تنگ آید وسعتِ ہفت آسماں لیکن مُقَرَّبانِ بارگاہِ حق کے مقامات و احوال و کیفیات کو عقولِ متوسطہ احاطہ نہیں کرسکتیں ؎ تو ندیدی گہے سلیماں را چہ شناسی زبانِ مرغاں را اے شخص! تو نے تو کبھی سلیمان علیہ السلام کو دیکھا ہی نہیں پس تو پرندوں کی زبان کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ منشا یہ ہے کہ اہل اللہ کے مقاماتِ قرب کو ہرکس و ناکس نہیں سمجھ سکتا تاوقتیکہ ان کی صحبت میں رہ کر اللہ کی محبت سیکھے اور سلوک طےکرے یعنی کسی شیخ کامل کے مشورہ سے اوامرِ الٰہیہ پر عمل اور نواہی سے اجتناب اور سُنّت کی اتباع سے وہ مقاماتِ قُرب نصیب ہوں گے جو ابھی گوشۂ وہم و گُمان میں بھی نہیں آسکتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو نصیب فرمادیں اور یہ دولتِ باطنی صرف مومنینِ کاملین کو نصیب ہوتی ہے کسی کا فریا فاسق کو نہیں ملتی کیوں کہ مومن اللہ کا غُلام ہوتا ہےاور کافر طبیعت کا غُلام ہوتا ہے۔ اسی طرح مومن فاسق یعنی گناہ گار مومن بھی اس نعمت قُرب خاص سے محروم رہتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ کافر تو بالکل ہی محروم ہے کیوں کہ اس کے اندر ایمان ہی نہیں اور گناہ گار مومن کے دل میں ایمان تو ہے لیکن اتنا کمزور ٹمٹماتا ہُوا ایمان ہے جس سے گُناہ کے تقاضے کے وقت وہ طبیعت کا غُلام ہوجاتا ہے اور گُناہوں میں ملوث ہوجاتا ہے، اس وقت وہ اللہ کی نظر کو فراموش کردیتا ہے کہ اللہ کی نظر میری نظر کو دیکھ رہی ہے۔ مثلاً کوئی حسین شکل جس پر جوانی چڑھی ہوئی ہے سامنے آگئی تو