درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
چیز کو آدمی سمجھتا ہے کہ میرے پیر کی بیڑی اور قید ہے اسی قید اور بیڑی کو اللہ تعالیٰ آزادی بناسکتا ہے۔ دُنیا کے لوگ تو قیدی کے پاؤں کی بیڑی کھولیں گے تب جا کے وہ آزادی دیتے ہیں لیکن مولانا رومی اللہ کی قُدرت کا کرشمہ دکھاتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ فیصلہ کرلے تو قیدی کے پاؤں کی زنجیر اور بیڑی ہی کو آزادی بنادیتا ہے، قید ہی کو آزادی میں تبدیل کردیتا ہے ؎ اَز بروں چوں گورِ کافر پُر حِلَل و اندوں قہر خُدا عزّ و جل ارشاد فرمایا کہ کافر بادشاہوں کی قبروں پر خُوب سنگِ مرمر لگائے جارہے ہیں اور گلاب جل یعنی عرقِ گلاب اور پُھول برسائے جارہے ہیں اور دوسرے ملکوں کے بادشاہ پھولوں کی چادر چڑھارہے ہیں لیکن اندر خُدا کا قہر ہورہا ہے۔ تو فرمایا کہ بعضے لوگ لباس بڑے قیمتی پہنتے ہیں مرسیڈیز پر چلتے ہیں مگر اللہ کی نافرمانی مثلاً شراب اور زنا اور بدمعاشی اور وی سی آر کی نحوست سے ان کے دل پر عذاب ہوتا رہتاہے۔ مُنہ میں کباب دِل پر عذاب لہٰذا ظاہری ٹھاٹھ باٹ کی فکر مت کرو، مالک کو راضی رکھو تو چٹائیوں اور بوریوں پر سوکھی روٹیوں میں سلطنت اور بریانی کا مزہ دیں گے ؎ ظاہرش راپشّۂ آرد بہ چرخ باطنش باشد محیطِ ہفت چرخ ارشاد فرمایا کہ اللہ والوں کا ظاہر اتنا کمزور ہوسکتا ہےکہ اگر ایک مچھر بھی کاٹ لے تو وہ ناچ جائیں یعنی تکلیف سے بے قرار ہوجائیں لیکن ان کا باطن ساتوں آسمان کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ لہٰذا اہل اللہ کے باطن کی قوت اور وسعت کا تم اندازہ نہیں کرسکتے کیوں کہ ؎ ظلِّ او اندر زمیں چوں کوہِ قاف روحِ او سیمرغ بس عالی طواف