درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
رومی تڑپ گئے اور اونٹنی پر بیٹھ کر تلاش کرتے کرتے مُلکِ شام کے قریب پہنچے اور کسی سے پوچھا کہ کیا تم نے کہیں میرے پیر حضرت شمسُ الدین تبریزی کو دیکھا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ہاں ہم نے ان کو شام میں دیکھا ہے تو فرمایا کہ آہ!جس شام میں میرا شمسُ الدین رہتا ہے اس شام کی صبح کیسی ہوگی۔ پھر تبریز پہنچ کر اپنی اونٹنی سے فرمایا ؎ اُبْرُکِیْ یَانَاقَتِیْ طَابَ الْاُمُوْرُ اِنَّ تَبْرِیْزًا لَّنَاذَاتَ الصُّدُوْر اے میری اونٹنی!ٹھہر جا میرے تو سب کام بن گئے۔ دیکھو یہ ہے محبتِ شیخ، کیا حُسنِ ظن تھا اپنے شیخ کے ساتھ اور کیسی شدید محبت تھی کہ اونٹنی سے فرمارہے ہیں کہ ٹھہر جا، میرے پیر کا شہر آگیا، میرے سب کام بن گئے۔ شہرِ تبریز میرے سینے کے رازوں کا شہر ہے، اسرارِ محبت کا شہر ہے، محبت کے بھیدوں کا شہر ہے، اللہ کی محبت کے بھید شمسُ الدین تبریزی کے سینے کے ذریعہ مجھے یہیں سے ملے ہیں۔ آہ! بتاؤ کیا یہ محبت نہیں ہے؟ پھر فرمایا ؎ اِسْرَحِیْ یَا نَاقَتِیْ حَوْلَ الرِّیَاضِ اِنَّ تَبْرِیْزًا لَّنَا نِعْمَ الْمَفَاضِ اے میری اونٹنی!شہرِ تبریز کے باغات کے گرد جلدی جلدی گھاس چرلے۔ شہرِ تبریز ہمارے لیے بڑے فیض کی جگہ ہے، میرا فیض انوار و تجلیاتِ الٰہیہ ہیں اور تیرا فیض یہاں کی اچھی اچھی مُبارک گھاس ہے۔ آگے فرماتے ہیں ؎ ہر زماں از فوحِ روح انگیز جاں از فرازِ عرش بر تبریزیاں اے خدا! ہر لمحہ، ہر وقت تبریز والوں پر عرشِ اعظم سے اپنی رحمت اور محبت و معرفت اور فیض کی زبردست بارش فرما۔ بتائیے یہ کیا بات ہے کہ صرف شیخ ہی کے لیے نہیں پورے شہرِ تبریز کے لیے دُعا ہورہی ہے۔ کیا کہیں محبت قسمت والوں کو عطا ہوتی ہے