درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اب اس پر ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ تھانہ بھون کا ایک بھنگی،جھاڑو لگانے والا ہندو مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃُاللہ علیہ کے پاس نانوتہ پہنچا۔ مولانا نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ کہا کہ میں آپ کے پیر حاجی امداد اللہ صاحب کے قصبہ تھانہ بھون سے آیا ہوں۔ مولانا نے فوراً فرمایا کہ اس کے لیے چار پائی لاؤ، دری بچھاؤ اور جلدی سے اس کے لیے آلو پوری کا ناشتہ منگوایا۔ کسی طالب علم نے کہا حضرت! یہ تو ہندو بھنگی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ تیری نظر تو بھنگی پر ہے اور میری نظر اس پر ہے کہ یہ میرے شیخ کے وطن سے آیا ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ میں کافر کا اکرام کررہا ہوں حالاں کہ میں نے کافر کا نہیں تھانہ بھون کا اکرام کیا ہے، اپنے شیخ کا اکرام کیا ہے۔ آہِ محبت سمجھنے کے لیے محبت بھرا دل ہونا چاہیے عقل میں نور ہونا چاہیے۔ جن کی عقل میں فتور ہوتا ہے وہ ان باتوں کو نہیں سمجھتے۔ شیخ کی محبت سیکھنی ہے تو مولانا رومی سےسیکھو۔ فرماتے ہیں ؎ من نجویم زیں سپس راہِ اثیر پیر جویم پیر جویم پیر پیر جب مجھے معلوم ہوگیا کہ اللہ کا راستہ بدون سایۂ راہ بر نہیں ملتا تو میں تنہا اللہ کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کروں گابلکہ اللہ کو پانے کے لیے میں پیر ڈھونڈوں گا پیر ڈھونڈوں گا پیر تلاش کروں گا پیر، تلاش کروں گا۔ آ ہ! پیر کے نام ہی سے مست ہوگئے اور پیر پیر کی رٹ لگادی۔ کسی نے حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃُاللہ علیہ سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ حضرت شمسُ الدین تبریزی کا نام آتے ہی مولانا رومی مست ہوجاتے ہیں اور صفحے کے صفحے ان کی تعریف میں لکھ جاتے ہیں۔ حاجی صاحب نے فرمایا کہ اگر مولانا رومی پچاسوں برس عبادت کرتے تو ان کو وہ عظیم الشان قُرب نصیب نہ ہوتا جو شمسُ الدین تبریزی کی چند دن کی صحبت سے نصیب ہوگیا۔ آدمی جس کی کھاتا ہے اس کی گاتا ہے۔ یعنی جس سے نعمت ملتی ہے اس پر فدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شمسُ الدین تبریزی کا نام آتے ہی مولانا بے خود ہوجاتے ہیں۔ ایک بار حضرت شمسُ الدین تبریزی قونیہ سے اچانک غائب ہوگئے، مولانا