درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
آں سگے کُو گشت در کویش مقیم خاکِ پایش بہ زِ شیرانِ عظیم ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو کُتّا میرے محبوب مُرشد کی گلی میں رہتا ہے اس کے پیر کی خاک بڑے بڑے شیروں سے بہتر ہے اور اگلے شعر میں فرماتے ہیں ؎ آں سگے کُو باشد اندر کُوئے او من بہ شیراں کے دہم یک مُوئے او میرے شمسُ الدین تبریزی کی گلی میں جو کُتّا رہتا ہے میں شیروں کو اس کا ایک بال بھی نہیں دے سکتا۔ اَے کہ شیراں مرسگانش را غُلام گفتنِ امکاں نیست خامش والسلام اے دنیا والو! بڑے بڑے شیر اللہ والوں کے کُتّوں کے غُلام بن گئے، اب اس سے زیادہ میں حمقائے زمانہ کو نہیں سمجھا سکتا، بلکہ عوام الناس کو بھی نہیں سمجھا سکتا کیوں کہ عقولِ متوسطہ کے ادراک سے مافوق جلالُ الدین کی یہ گفتگو ہے۔ اللہ کی محبت کی اب اس سے زیادہ وضاحت میں نہیں کرسکتا ورنہ لوگ الزام لگائیں گے کہ جلالُ الدین پیر پرستی کررہا ہے لہٰذا اب میں خاموش ہوتا ہوں اور ان لوگوں کو سلام بھی کرتا ہوں۔ شیخ کے ذریعہ سے کیوں کہ اللہ ملتا ہے اس لیے مُرشد کی ہر چیز سے مرید کو محبت ہوتی ہے، اس کے وطن سے، اس کے گھر سے، اس کی گلی سے، اس کی گلی کے کُتّے سے، جس چیز کو بھی شیخ سے ادنیٰ نسبت ہوتی ہے مرید کو اس سے محبت ہوجاتی ہے لیکن جو اس راہ سے نا آشنا ہیں ان کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتیں، ان کو کیا کہیں سوائے اس کے کہ ؎ لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کمبخت تُو نے پی ہی نہیں