درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
کہ بوقتِ توبہ ارادۂ شکستِ توبہ نہ ہو تو یہ توبہ قبول ہے۔ اگر بالفرض آیندہ تو بہ ٹوٹ گئی تو اس سے پہلی توبہ باطل نہیں ہوتی وہ ان شاء اللہ! قبول ہے۔ یہ بات مستحضر رہے تو اس کو شیطان کبھی مایوس نہیں کرسکتا۔ میرا شعر ہے ؎ یہی ہے راستہ اپنے گُناہوں کی تلافی کا تری سرکار میں بندوں کا ہر دم چشم تر رہنا امامِ غزالی کے استاد علامہ اسفرائینی نے تیس سال تک دُعا کی کہ یا اللہ! مجھے گناہوں سے عصمت عطا فرمادے۔ ایک دن دل میں وسوسہ آیا کہ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہیں پھر بھی میری دُعا قبول نہ ہوئی کہ مجھ سے خطائیں ہوجاتی ہیں۔ الہام ہوا کہ اے اسفرائینی! میں نے اپنے ملنے کے دو راستے رکھے ہیں: ایک تقویٰ کا دوسرے توبہ کا، تو تقویٰ ہی کے راستے سے کیوں آنا چاہتا ہے،جب تقویٰ کا راستہ تجھے نہیں مل رہا ہے تو توبہ کے راستے سے آجا۔ میرا شعر ہے ؎ مایوس نہ ہوں اہلِ زمین اپنی خطا سے تقدیر بدل جاتی ہے مضطر کی دُعا سے احقر راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ دورانِ درسِ مثنوی حضرت والا نے بیان فرمایا کہ بزرگوں نے کس طرح اپنے شیخ سے محبت اور اس کا ادب کیا ہے اور اس پر ایک صاحبِ دل کا یہ شعر پڑھا کہ ؎ نسبتِ خود بہ سگت کردم و بس منفعلم زاں کہ نسبت بہ سگِ کُوئے تو شُد بے ادبی میں نے آپ کی گلی کے کُتّے کی طرف اپنی نسبت کردی اے میرے شیخ! میں شرمندہ ہوں کہ مجھ سے سخت بے ادبی ہوگئی کیوں کہ میں اس قابل بھی نہیں تھا کہ آپ کی گلی کے کُتّے کی طرف اپنی نسبت کروں اور پھر حضرت والا نے حضرت جلالُ الدین رومی رحمۃُاللہ علیہ کا یہ شعر پڑھا ؎