درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
عبادت کے ساتھ قُربِ ندامت مستزاد ہے اور ندامت کے سبب ہی اس کو لباسِ محبوبیت عطا ہورہا ہے۔ اسی لیے ہمیں حکم دے دیا اِسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ اپنے رب سے مُعافی مانگتے رہو۔ جب کوئی باپ بیٹے سے کہے کہ مُعافی مانگو تو یہ دلیل ہے کہ وہ مُعاف ہی کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اسۡتَغۡفِرُوۡا کا حکم دینا دلیل ہے کہ وہ ہم کو مُعاف کرنا چاہتے ہیں اور آگے اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا فرماکر اور ترغیب دے دی کہ میں بہت بخشنے والا ہوں لہٰذا ظالمو! مجھ سے کیوں معافی نہیں مانگتے اور اسۡتَغۡفِرُوۡا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہم سے خطائیں ہوں گی ورنہ مُعافی مانگنے کا حکم کیوں دیتے؟ لہٰذا جو بندہ مُعافی مانگتا رہتا ہے یہ علامت ہے کہ یہ حال میں بھی اللہ کا محبوب ہے اور مستقبل میں بھی محبوب رہے گا اس لیے خطاؤں سے مایوس نہ ہو۔ گناہوں پر جری تو نہ ہو بلکہ کوشش کرو، جان کی بازی لگادو کہ کوئی خطا نہ ہو لیکن اگر کبھی پھسل جاؤ تو گرے نہ پڑے رہو اُٹھ کھڑے ہو، توبہ کرکے پھر ان کے دامنِ محبوبیت میں آجاؤ ؎ ہم نے طے کیں اس طرح سے منزلیں گر پڑے گر کر اُٹھے اُٹھ کر چلے اور اگر شیطان ڈرائے کہ تمہاری توبہ بھی کوئی توبہ ہے جو ٹوٹتی رہتی ہے، ابھی توبہ کررہے ہو پھر یہی خطا کرو گے تو کہہ دو کہ میں پھر توبہ کرلوں گا۔ ان کی چوکھٹ موجود ہے اور میرا سر باقی ہے، میری جھولی موجود ہے اور ان کا دستِ کرم باقی ہے، میرا یہ سر سلامت رہے جو ان کی چوکھٹ پر پڑا رہے اور میرا دستِ سوال باقی رہے کہ میری جھولی بھرتی رہے۔ توبہ کی قبولیت کے لیے اتنا کافی ہے کہ توبہ کرتے وقت توبہ توڑنے کا ارادہ نہ ہو، پکّا عزم ہو کہ آیندہ ہر گزیہ گُناہ نہ کروں گا اور اگر وسوسہ آئے کہ تم پھر گُناہ کرو گے تو یہ وسوسہ ہے ارادہ نہیں۔ وسوسہ کچھ مضر نہیں‘ یہ خوفِ شکستِ توبہ عز مِ شکستِ توبہ نہیں ہے بلکہ یہ خوف تو عینِ بندگی ہے، اپنے ضعف اور شکستگی کا اظہار ہے کہ یااللہ!مجھے اپنے اوپر بھروسا نہیں آپ ہی کا بھروسا ہے کہ آپ مجھے گُناہ سے بچائیں گے۔ خوب سمجھ لیجیے