درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
گناہ گار بندے کو پستی سے اُٹھاکر ایک لمحہ میں آسمان تک پہنچادیتی ہے، گناہوں کی دوری توبہ کی برکت سے حضوری میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ؎ اے میرےگناہ گار بندو! کیوں مایوس ہوتے ہو۔ اگر تم گُناہ کرکے مجھ سے دور ہوگئے تو توبہ کی سواری میں بیٹھ کر میرے پاس آجاؤ۔ دنیا میں کوئی جہاز کوئی راکٹ ایسا ایجاد نہیں ہوا جو تمہیں مجھ تک پہنچادے۔ تم توبہ کرلو میں توبہ کرنے والوں کو صرف مُعاف ہی نہیں کرتا اپنا محبوب بھی بنالیتا ہوں۔ توّابین کو بوقتِ توبہ اور بہ برکتِ قبولیتِ توبہ ہم خلعتِ محبوبیت سے نواز دیتے ہیں اور یہی نہیں کہ ایک ہی دفعہ مُعاف کریں گے اگر آیندہ بھی خطا ہوجائے گی تو آیندہ بھی ہم تمہیں مُعاف کردیں گے اسی لیے مضارع سے نازل فرمایا جو حاملِ حال بھی ہوتا ہے اور حاملِ استقبال بھی ہوتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال اور مستقبل دونوں کے تحفظ کی ضمانت دے رہے ہیں کہ اگر بربنائے بشریت تم سے خطائیں ہوں گی لیکن اگر تم توبہ کرتے رہو گے تو حالاً اور استقبالاً ہم تم سے پیار کریں گے، توبہ کی برکت سے ہم اپنے دائرۂ محبوبیت سے تمہارا خروج نہیں ہونے دیں گے۔ تم گُناہ کرتے کرتے تھک سکتے ہو ہم مُعاف کرتے کرتے نہیں تھک سکتے جیسے بچہ ماں کی چھاتی پر پاخانہ پھر دیتا ہے تو کیا ماں بچے کی محبت سے پھر جاتی ہے؟ یا اس کو نہلا دھلاکر ‘ عمدہ کپڑے پہناکر گود میں اُٹھاکر پھر پیار کرتی ہے اور یقین سے جانتی ہے کہ یہ دوبارہ پاخانہ کرے گا لیکن ارادہ رکھتی ہے کہ میں دھوتی رہوں گی تو کیا اللہ تعالیٰ کی محبت ماؤں کی محبت سے کم ہے؟ ارے ماں کیا جانتی محبت کرنا! ماؤں کو محبت کرنا انہوں نے ہی تو سکھایا ہے اسی لیے یُحِبُّ نازل فرماکر تَوَّابِیْنَ کو امید دلادی کہ مایوس نہ ہونا۔ توبہ کی برکت سے ہم تمہیں اپنے دائرۂ محبوبیت سے خارج نہیں ہونے دیں گے بلکہ اللہ کی رحمت توبہ کرنے والوں کو قُربِ سابق سے زیادہ قُربِ لاحق عطا فرماتی ہے کیوں کہ قُربِ سابق اس کی عبادت کے سبب تھا اور قُربِ لاحق جو عطا ہورہا ہے اس میں قُربِ ------------------------------