درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
کہ’’مولوی آں باشد کہ بدونِ دلیل خاموش نہ شود‘‘ مولوی وہ ہے جو بلا دلیل کے خاموش نہ رہے۔ تو اس کی اتنی پیاری دلیل ہے کہ مزہ آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اَلَیۡسَ اللہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ ؎ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں۔ بولیے کیا اس میں تذکرہ ہے کہ اگر لیلیٰ نہ ملی تو مولیٰ تمہیں کافی نہ ہوگا اور تمہاری زندگی کیسے گزرے گی؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہارا مولیٰ تمہارے لیے ہر حال میں کافی ہے۔ جو لیلاؤں کو نمک دے سکتا ہے وہ بغیر لیلاؤں کے تمہارے قلب و جاں میں دنیا بھر کی تمام لذّتوں کا حاصل اور سرور داخل کرسکتا ہے۔ بس ذرا محبّت سے اللہ کا نام لے کر تو دیکھو، اللہ کے لیے حرام لذّتوں کو ترک کرکے تو دیکھو کہ کیا ملتا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ ہم مٹی کے ہیں اور ہر جنس اپنی جنس کی طرف مائل ہوتی ہے اور یہ اس کا فطری تقاضا ہے۔ پس ہماری مٹی مٹی پر مٹی ہوکر مٹی ہونا چاہتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ تم اپنی مٹی کی فطرت کے خلاف میری طرف پرواز کرو تب تمہاری قیمت بڑھے گی۔ جن چیزوں کی فطرت میں پرواز ہے ان کا اُڑنا کیا کمال ہے، کمال یہ ہے کہ جن کو مٹی سے ہم نے پیدا کیا ان کو پرواز حاصل ہو۔ جیسے ہوائی جہاز کے جتنے اجزاء ہیں سب مٹی کے ہیں، اس کا لوہا، اس کا تانبا اس کا تمام مادّہ اور میٹیریل زمین سے ہے اس لیے اپنی فطرت کے مطابق تمام جہاز زمین پر رکھے ہوئے ہیں مگر یہی جہاز اپنی فطرت کے خلاف کب پرواز کرتا ہے؟ جب کوئی پائلٹ ہو اور جہاز میں پیٹرول ہو تب اسے پرواز عطا ہوتی ہے۔ ہوائی جہاز کا ٹیک آف کرنا تین ’’پ‘‘ پر موقوف ہے۔ ایک پائلٹ جو اس کو صحیح رُخ اور صحیح منزل کی طرف لے جائے دوسرے پیٹرول جو جہاز کو اُڑانے کا ایندھن ہے۔ معلوم ہوا کہ پائلٹ اور پیٹرول پرواز کی ضمانت دیتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے جسم کی مٹی کو اللہ کی طرف پرواز کرانے کا پائلٹ کون ہے؟ شیخ ہے اور پیٹرول اور اسٹیم کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے لیکن یہ اسٹیم کیسے بنتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نفس کی جو خواہشات ہیں ان کو روکنے کا غم اُٹھانے ------------------------------