درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
کے باوجود نفس کی شرارت سے مغلوب ہوکر میں اس پر عمل نہ کروں۔ اسی طاقت کو حاصل کرنے کے لیے خانقاہوں میں، اہل اللہ کی صحبتو ں میں رہا جاتا ہے کہ اتنا خوف حاصل ہوجائے کہ ہم اپنے نفس کی بُری خواہشوں کو روک سکیں جس کو مولانا رومی نے اس شعر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا عطا فرمودہ قطرۂ علم ہمارے عناصرِ اربعہ یعنی خواہشاتِ نفسانیہ کی قید سے آزاد ہوجائے۔ لہٰذا شیخ کے ساتھ سفر وحضر میں یہی نیت رکھو کہ ہمیں تقویٰ حاصل ہوجائے اور اللہ ہمیں مل جائے ورنہ شیطان ونفس نیت میں غیر اللہ کی ملاوٹ کرکے عمل کو ضایع کردیتے ہیں مثلاً یہ کہ شیخ کے ساتھ دستر خوان پر طرح طرح کی غذائیں ملیں گی، طرح طرح کے شہر اور ملک دیکھیں گے، طرح طرح کے نمکین چہرے دیکھ کر حرام لذّت اینٹھیں گے وغیرہ یہ نفس کی چوریاں ہیں کہ اگر ان سے ہشیار نہ رہے تو شیخ کی صحبت میں رہتے ہوئے محروم رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے نفس کے مکائد کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس زمانے میں سب سے بڑا الٰہ باطل اور نفس و شیطان کا سب سے بڑا جال یہ حسین شکلیں ہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ بدنظری سے حفاظت کی توفیق عطا فرمادے تو سمجھ لو اس پر عظیمُ الشان انعام نازل ہوگیا اور سمجھ لو کہ بس وہ مولیٰ والا بننے والا ہے اور جو یہ کہے کہ ارے! دیکھنے سے کیا ہوتا ہے، نہ لیا نہ دیا فقط دیکھ لیا تو یہ انتہائی احمق اور گدھا ہے اور کبھی اللہ کو نہیں پاسکتا کہ نظر بازی کو معمولی گُناہ سمجھ رہا ہے۔ اگر یہ معمولی گناہ ہوتا تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو آنکھوں کا زنا نہ فرماتے ۔ آج اسی سے لوگ کولہو کے بیل کی طرح ترقی سے محروم ہیں اور یہ کوئی معمولی نقصان نہیں ہے، بدنظری کرنے والا اولیائے صدّیقین کی خطِ انتہا تک نہیں پہنچ سکتا اور جب موت آئے تب اس کو حسرت ہوگی کہ جن پر مرے تھے آج انہوں نے ساتھ چھوڑ دیا اور قبر میں جنازہ تنہا اُتر رہا ہے۔ کاش! ہم تقویٰ اختیار کرتے تو ہمیں مولیٰ مل جاتا اور ہم اولیائے صدّیقین کی آخری سرحد تک پہنچ جاتے۔ لیکن اس وقت پچھتانے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ جیتے جی ان لیلاؤں کو چھوڑ دو، حرام لذّتوں سے توبہ کرلو، نگاہوں کی حفاظت کرلو تو ان لیلاؤں کا اور تمام لذّتوں کا حاصل دل میں اللہ تعالیٰ دینے پر قادر ہے۔ عُلماء حضرات اس کی دلیل مانگیں گے کیوں