درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
کی بُری بُری خواہشات، گناہوں کے گندے تقاضے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی کہ میرے خاص بندے بُری خواہش کو روکتے ہیں یہ اہلِ جنت کا راستہ ہے۔اس آیت کی ترتیب میں غور کیجیے تو یہ بات سمجھ میں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ہو یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سوال اعمال اور حساب کتاب سے اتنا ڈرے جس کا ثمرہ یہ مرتّب ہو کہ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی اپنے نفس کو بُری خواہش سے روک دے فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی؎ ایسے لوگوں ہی کا ٹھکانا جنت ہے۔ معلوم ہوا کہ اتنا خوف مطلوب ہے جو نفس کو بُری خواہش سے روک دے یہ اہلِ جنت کا راستہ ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ ان سے کبھی خطا ہی نہیں ہوتی اگر کبھی احیاناً خطا ہوجائے تو استغفار و توبہ سے اس کا تدارک کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو شخص اپنے نفس کو بُری خواہش سے نہ روک سکے، نافرمانی کو مسلسل اپنی غذا بنالے اس کا خوف اہلِ جنت کا خوف نہیں ہے۔ ابھی اس کا خوف بالغ نہیں ہوا، ثمر آور اور نتیجہ خیز نہیں ہوا ورنہ یہ اپنے نفس پر قابو پا جاتا، ابھی یہ شخص اہلِ جنت کے راستے پر نہیں ہے۔ مولانا رومی اس لیے یہ دُعا فرمارہے ہیں کہ اے اللہ! بعض وقت علم ہوتا ہے لیکن نفس کے شر کی وجہ سے عمل کی توفیق نہیں ہوتی اس لیے عناصرِ اربعہ اور تقاضا ئے نفسانیہ کے غلبہ سے مجھے نجات عطا فرمائیے تاکہ میں اپنے علم پر عمل کرسکوں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمّت کو یہ دُعا سکھائی اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ اے اللہ! رشد و ہدایت کی باتوں کو میرے دل میں الہام فرماتے رہیے لیکن بعض وقت الہام رُشد ہوجاتا ہے، لیکن نفس کے شر کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتا مثلاً جانتا ہے کہ اس حسین کو دیکھنا صحیح نہیں، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے لیکن نفس کی شرارت سےدیکھتا ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے الہامِ رُشد مانگ کر فوراً یہ مانگا وَاَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ؎ اور مجھے میرے نفس کے شر سے بچائیے تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہدایت کا علم ہونے ------------------------------