درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
روح میں طاقت اللہ کی عبادت، فرماں برداری اور نورِ تقویٰ سے آتی ہے لہٰذا جسم کے عناصرِ متضادہ پر روح کی گرفت اور کنٹرول صحیح رہتا ہے اور یہ عناصر سکون سے رہتے ہیں اور گناہ روح کو کمزور کرتا ہے۔ لہٰذا بدنظری عشقِ مجازی اور غیراللہ سے عشق بازی میں پریشانی بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانی سے روح کمزور ہوگئی اور اس کے اپنے عناصرِ اربعہ متضادہ پر اس کا کنٹرول کمزور ہوگیا اور دوسرے بدنظری کرکے اور کسی معشوق کو دل دے کر اس معشوق کے چار عناصرِ متضادہ کا بوجھ بھی اس نے اپنے سر لے لیا اس طرح اب آٹھ عناصر کا بوجھ پڑگیا، چار اپنے عناصرِ متضادہ کا بوجھ اور چار اس معشوقِ مجازی کے عناصر کا بوجھ۔ نافرمانی سے روح تو کمزور ہوگئی اور عناصرِ متضادّہ کا بوجھ دو گنا ہوگیا گویا مرکز کمزور ہوگیا اور اپوزیشن قوی ہوگئی لہٰذا صوبوں میں کشمکش، انتشار اور بغاوت شروع ہوجاتی ہے، آنکھوں کے صوبے میں بغاوت شروع ہوجاتی ہے کہ اس معشوق کو دیکھ کر حرام لذّت حاصل کرتی ہیں، کانوں کا صوبہ بھی بغاوت کرتا ہے اور اس معشوق کی باتوں سے حرام لذّت درآمد کرتا ہے، اسی طرح ہاتھ، پاؤں، کان، ناک سب اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس سے روح مُعَذَّب اور بے چین ہوجاتی ہے کہ ایک پل کو سکون نہیں پاتی اس لیے اکثر ایسے لوگ آخر میں یا پاگل ہوجاتے ہیں یا خودکشی کرلیتے ہیں اور تاریخ میں ایک مثال نہیں مل سکتی کہ کسی اللہ والے نے خودکشی کی ہو یا پاگل اور مجنو ن ہوگیا ہو۔ میرا شعر ہے ؎ خُدا کی سرکشی سے خودکُشی ہے مال و دولت میں کبھی اللہ والوں سے نہیں ایسا سنا جاتا بُتوں کے عشق سے دنیا میں ہر عاشق ہُوا پاگل گناہوں سے سُکوں پاتا تو کیوں پاگل کہا جاتا عشقِ مجازی کی یہ تقریر فلسفیانہ اور منطقیانہ ہے، نہ میں نے کہیں سُنی نہ پڑھی اور شاید آپ نے بھی کہیں نہ سُنی ہو اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے میرے دل کو یہ مضمون عطا فرمایا فَالْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ تو ’’وارہانش از ہوا و زخاکِ تن‘‘ میں ہوا سے مراد ہوائے نفس ہے یعنی نفس