درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
کی قید سے آزاد نہیں کراسکتا۔ اس کے نورِ علم پر نفس کے اندھیرے ہو ں گے جس سے اس کا علم نہ خود اس کے لیے مفید ہوگا نہ امّت کے لیے مُفید ہوگا۔ اس لیے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ دُعا کرتے ہیں کہ ؎ قطرۂ علم است اندر جانِ من وا رہانش اَز ہوا و زخاکِ تن اے اللہ! علم کا جو قطرہ آپ کا بخشیدہ اور عطا فرمودہ میری جان میں موجود ہے اس قطرۂ علم پر میری خواہشاتِ نفس کے اندھیرے چھائے ہوئے ہیں اور وہ قطرۂ علم میری خاک تن یعنی میرے عناصرِ اربعہ(آگ، مٹی، پانی اور ہوا) کے گندے تقاضوں میں چھپا ہوا ہے آپ اپنے کرم سے اسے نفس کی قید سے رہائی دلادیجیے اور اپنے دریائے نور سے میرے اس قطرۂ علم کو متّصل فرمادیجیے کیوں کہ آپ کے نُور کے سامنے ہوائے نفس کے اندھیروں کی کیا مجال ہے جو ٹھہر سکیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ کہ گریزد ضدّہا ازَ ضدّہا شب گریزد چُوں بر افروزد ضیا ہر ضد اپنی ضد سے بھاگتی ہے جس طرح رات کی تاریکی بھاگ جاتی ہے جیسے ہی صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے۔ انسان کی تخلیق عناصرِ اربعہ سے ہوئی ہے یعنی آگ، پانی، مٹی اور ہوا سے اور یہ چاروں چیزیں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ ان کو روح روکے ہوئے ہے لہٰذا جب روح نکل جاتی ہے تو چاروں عنصر اپنے اپنے مراکز اور مستقر کی طرف چلے جاتے ہیں۔ آگ آگ میں، پانی پانی میں، مٹی مٹی میں اور ہَوا ہَوا میں مل جاتی ہے‘ چناں چہ چھ ماہ بعد اگر قبر کھود کے دیکھو گے تو کچھ نہیں ملے گا۔ اس لیے روح جتنی زیادہ قوی ہوگی اتنے ہی عناصرِ اربعہ مغلوب اور تابع رہیں گے کیوں کہ جب مرکز قوی ہوتا ہے تو حزبِ اختلاف یعنی اپوزیشن دبی رہتی ہے اور اگر مرکز کمزور ہوگیا تو حکومت اپوزیشن کی ریشہ دوانیوں سے پریشان رہتی ہے اور صوبوں میں انتشار، کشمکش اور بغاوت شروع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح