درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
مَنْ خَرَجَ فِیْ طَلَبِ الْعِلْمِ فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ حَتّٰی یَرْجِعَ؎ جو اللہ کی رضا کے لیے علم کی طلب میں گھر سے نکلا اس کے لیے اس مُجاہد کا ثواب ہے جو جہاد کے لیے نکلا ہے یہاں تک کہ وہ گھر لوٹ آئے کیوں کہ دین کو زندہ کرنے میں اور شیطان کو ذلیل کرنے میں اور نفس پر مشقت اُٹھانے میں وہ مُجاہد ہی کی طرح ہے۔ اسی طرح عُلمائے سوء کے لیے جو علم کو دنیاداری، تن پروری اور اپنی عزّت و جاہ کے لیے آلۂ کار بناتے ہیں احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِیُجَارِیَ بِہِ الْعُلَمَاءَ اَوْلِیُمَارِیَ بِہِ السُّفَھَآءَ اَوْ یَصْرِفَ بِہٖ وُجُوْہَ النَّاسِ اِلَیْہِ اَدْخَلَہُ اللہُ النَّـارَ؎ یعنی جو اس نیت سے علم حاصل کرے کہ علماء سے فخر کرے یا بے وقوفوں اور جاہلوں سے جھگڑے یا لوگوں کو اس کے ذریعے اپنی طرف متوجہ کرے تاکہ لوگ اس کی تعظیم کریں، مراد یہ ہے کہ علم سے اس کی غرض طلبِ دنیا، شہرت و مال و جاہ وغیرہ ہو اس کے لیے جہنم کی وعید ہے۔اور ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے: مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مَمَّا یُبْتَغٰی بِہٖ وَجْہُ اللہِ لَایَتَعَلَّمُہٗ اِلَّا لِیُصِیْبَ بِہٖ عَرَضًا مِّنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْ عَرَفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَعْنِی رِیْحَھَا؎ یعنی قرآن و حدیث کا جو علم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سیکھا جاتا ہے اس علم کو اگر کوئی اس لیے سیکھتا ہے کہ دنیا کا مال و متاع حاصل کرے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایسا شخض جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ اس لیے تحصیلِ علومِ دینیہ کے لیے تصحیحِ نیت اور اخلاص انتہائی ضروری ہے۔ اگر یہ حاصل نہیں تو علم اس کے لیے وبال ہے اور اخلاص بغیر اللہ والوں کی صحبت کے نہیں ملتا۔ بڑے سے بڑا علّامہ بھی اگر اللہ والوں سے مستغنی ہوگا تو اس کا علم اس کو نفس ------------------------------