درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
وعدہ آنے کا شبِ آخر میں ہے صبح سے ہی انتظارِ شام ہے حضرت حکیمُ الامّت سے تعلق کے بعد سیّد صاحب کے حالات بدل گئے اور حضرت نے خلافت بھی عطا فرمائی اور شیخ کی محبت میں ان کے یہ اشعار بہت درد بھرے ہیں ؎ جی بھر کے دیکھ لو یہ جمالِ جہاں فروز پھر یہ جمالِ نور دکھایا نہ جائے گا چاہا خُدا نے تو تری محفل کا ہر چراغ جلتا رہے گا یوں ہی بجھایا نہ جائے گا جس کو جو ملا ہے شیخ کی غُلامی سے ملا ہے ورنہ عالم کے علم پر اس کے نفس کے اندھیرے چھائے رہتے ہیں، اپنے علم پر عمل کی توفیق نہیں ہوتی اور اگر عمل ہوتا ہے تو اخلاص نہیں ہوتا، علم کی کمیت تو ہوتی ہے کیفیت نہیں ہوتی۔حضرت قطب العالم مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اخلاص بغیر صحبتِ اہل اللہ کے مل ہی نہیں سکتا۔ آپ تجربہ کرکے دیکھ لیں کہ غیر صحبت یافتہ عالم کے علم و عمل میں فاصلے ہوں گے۔ علم اس کے لیے شہرت و جاہ اور تن پروری کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اسی کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ علم را برتن زنی مارے بُود علم گر بر دل زنی یارے بُود علم کو اگر تن پروری اور شہرت و جاہ و مال کے لیے استعمال کرو تو یہ علم تمہارے لیے سانپ ہےجو تمہیں ہلاک کردے گا لیکن اگر علم کو دل پروری کا ذریعہ بناؤ کہ دل بن جائے، دل اللہ والا ہوجائے، اللہ کی رضا حاصل ہوجائے تو یہ علم تمہارا بہترین دوست ہے۔ اسی لیے حدیثِ پاک میں ہے ، ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ: