درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
محبّت غالب ہو پھر ایسا علم نورٌ علی نور ہوتا ہے ، جس کے علم پر اللہ کی محبت غالب ہوگئی اس کے علم میں چاشنی بڑھ جاتی ہے اور ایک عالَم اس سے سیراب ہوتا ہے لہٰذا اس شعر سے مُراد مدرسہ چھوڑنا نہیں ہے بلکہ مدرسہ کے علوم پر اللہ کی محبّت کو غالب رکھنا ہے تاکہ عالمِ منزل بالغِ منزل ہوجائے اور یہ نعمت خانقاہوں سے اہلِ دل کے سینوں سے ملتی ہے۔ اس کے بعد سیّد صاحب نے حضرت حکیمُ الامّت سے بیعت کی درخواست کی لیکن واہ رے حکیمُ الامّت!۔ حضرت نے ان کی اصلاح کے لیے فرمایا کہ میں ابھی آپ کو بیعت نہیں کروں گا۔ آپ کی فلاں فلاں تصنیف میں فلاں فلاں غلطی ہے جو ہمارے اکابر اہلِ سُنّت کے مسلک کے خلاف ہے لہٰذا اَلْعَلَانِیَۃُ بِالْعَلَانِیَۃِ کے تحت اپنے رسالے میں ان اغلاط سے اپنا رجوع شایع کریں توپھر آپ کو بیعت کروں گا۔ یہ سید صاحب کا بہت بڑا امتحان تھا کیوں کہ اتنے بڑے عالم کو اپنی علمی کوتاہیوں کے اعلان میں جاہ مانع ہوتی ہے لیکن سیّد صاحب کے چوٹ لگ چکی تھی۔ گئے اور اپنے دارالمُصنفین کے رسالے المعارف میں اعلان شایع کیا اور رسالہ لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت خوش ہوگئے اور فرمایا ؎ از سلیماں گیر اخلاصِ عمل اگر اخلاص سیکھنا ہےتو سیّد سلیمان ندوی سے سیکھو اور سیّد صاحب کو بیعت کرلیا۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃُاللہ علیہ فرماتے تھے کہ جب کوئی غیر عالم کسی اللہ والے سے بیعت ہوکر اللہ اللہ کرتا ہے تو صاحبِ نور ہوتا ہے لیکن جب کوئی عالم سلسلے میں داخل ہوتا ہے اور اللہ اللہ کرتا ہے تو نورٌعلیٰ نور ہوجاتا ہے ایک علم کا نور دوسرے ذکر کا نُور۔ سید صاحب نے جب اللہ اللہ کیا اور اللہ کی محبت کا مزہ ملا، نسبت عطا ہوئی اس وقت کے ان کے اشعار عجیب و غریب ہیں۔ فرماتے ہیں ؎ نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا ذکر میں تاثیرِ دورِ جام ہے اور نمازِ تہجد کے بارے میں فرمایا ؎