درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
قال را بگزار مردِ حال شَو پیشِ مردِ کاملے پامال شَو قال کو چھوڑو اور صاحبِ حال بنو اور کیسے بنو گے؟ کسی مردِ خُدا صاحبِ نسبت کے سامنے اپنے نفس کو مٹادو۔ سیّد صاحب تھانہ بھون پہنچ گئے اور حضرت حکیمُ الامّت مجدد الملّت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃُاللہ علیہ کی ایک ہی مجلس سے اتنے متاثر ہوئے کہ مجلس کے بعد خانقاہ کی چوکھٹ پکڑ کر رونے لگے اور فرمایا کہ میں سمجھتا تھا کہ میں بہت بڑا عالم ہوں لیکن آج معلوم ہوا کہ مجھے تو علم کی ہوا بھی نہیں لگی، علم تو اس بوڑھے بوریا نشین کے پاس ہے اور پھر یہ شعر فرمائے ؎ جانے کِس انداز سے تقریر کی پھر نہ پیدا شُبۂ باطل ہوا آج ہی پایا مزہ قرآن میں جیسے قُرآں آج ہی نازل ہوا چھوڑ کر تدریس و درس و مدرسہ شیخ بھی رندوں میں اب شامل ہوا اس آخری شعر میں بظاہر درس و تدریس و مدرسہ کی توہین معلوم ہوتی ہے لیکن توہین نہیں ہے بلکہ مُراد یہ ہے کہ پہلے منطق و فلسفہ اور علومِ ظاہرہ کا غلبہ تھا، اب عشقِ الٰہی کا غلبہ ہوگیا، علم درجۂ ثانوی ہوگیا اور مولیٰ درجۂ اولیں ہوگیا یعنی جو علم مدرسوں میں عالمِ منزل مولیٰ کرتا ہے پہلے اسی کو کافی سمجھتے تھے اور اللہ والوں کی صحبت سے جو درد محبت اور آہ وفغاں اور ان علوم پر عمل کی توفیق ملتی ہے جو ہمیں بالغِ منزلِ مولیٰ کرتی ہے اس کی دل میں اہمیت نہ تھی۔ اب زاویۂ نگاہ بدل گیا اور یقین آگیا کہ مولیٰ افضل ہے علمِ مولیٰ سے لیکن علمِ مولیٰ بھی ضروری ورنہ مولیٰ کا راستہ کیسے معلوم ہوگا اس لیے درس و تدریس بھی ضروری ہے، کچھ عُلماء ایسے ہونے چاہئیں جن کا علم زبردست ہو لیکن ان کے علم پر اللہ کی