درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اور عالم صاحبِ نسبت کے علم کی مثال یہ ہے کہ جیسے کنواں کھودا اور اتنا کھودا کہ گہرائی میں پانی کے چشمے تک پہنچ گئے اور زمین کے اندر سے سوتہ پھوٹ گیا اب اس کنویں کا پانی کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اسی طرح جو عالم اللہ اللہ کرتا ہے، کسی اللہ والے سے اللہ کے لیے دل و جان سے محبت کرتا ہے اور اس سے اپنے نفس کی اصلاح کراتا ہے، مُجاہدہ کرتا ہے، گناہوں سے بچنے کا غم اُٹھاتا ہے، اس اللہ والے کی برکت سے اپنے علم پر عمل کرتا ہے تو اس کے قطرۂ علم کا اتصال اللہ تعالیٰ کے غیر محدود دریائے علم سے ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا علم ختم نہیں ہوتا اور اس کو ایسے ایسے علوم عطا ہوتے ہیں کہ عُلمائے ظاہر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ یہ علوم اس کو کہاں سے آرہے ہیں جو کتابوں میں نہیں ملتے ؎ بینی اندر خود علومِ انبیاء بے کتاب و بے معید و اوستا اپنے اندر علومِ انبیاء کا فیضان دیکھتا ہے بغیر کتاب و استاد کے۔ اگلے شعر میں مولانا اس کی وجہ بیان کرتے ہیں ؎ خُم کہ از دریا دَر او راہے شود پیشِ او جیحون ہا زانو زند جس مٹکے کو سمندر سےخفیہ رابطہ ہوجائے تو اس کے سامنے بڑے دریائے جیحون اور دریائے فرات زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں کیوں کہ ان دریاؤں کا پانی خشک ہوسکتا ہے لیکن اس مٹکے کا پانی خشک نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس میں خفیہ راستے سے سمندر سے پانی آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے علمائے ظاہر جب کسی صاحب نسبت کی خدمت میں گئے تو حیران رہ گئے کہ یااللہ! یہ کیا علوم ہیں جن کی ہمیں ہوا بھی نہیں لگی۔ سید سلیمان ندوی رحمۃُاللہ علیہ کا علم معمولی نہیں تھا، شرقِ اوسط تک ان کے علم کا غلغلہ تھا لیکن شروع میں یہ تصوّف کے قائل نہیں تھے۔ حضرت کے بھانجے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃُاللہ علیہ سے ان کے مراسم تھے۔ ایک دفعہ مولانا نے ان کو مثنوی کا ایک شعر لکھ کر بھیج دیا جس سے سیّد صاحب کے دل پر چوٹ لگ گئی وہ کیا شعر تھا ؎