درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مولانا رومی عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ! مُعافی دینے میں آپ بے حد کریم ہیں اور جس کو آپ مُعاف فرمادیتے ہیں اس کے عیوب کی پردہ پوشی فرماتے ہیں۔ علّامہ آلوسی نے مغفرت کے معنیٰ لکھے ہیں بِسَتْرِ الْقَبِیْحِ وَاِظْہَارِ الْجَمِیْلِ؎ جس کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمادیتے ہیں اس کے عیوب کو چُھپادیتے ہیں اور اس کی نیکیوں کو ظاہر فرمادیتے ہیں پس اے اللہ! ہمارے عیوب اور گناہوں کو بھی مخلوق کی نظر سے چُھپادیجیے کیوں کہ آپ کی ہر صفت غیر محدود ہے اس لیے آپ کا پردۂ ستاریت بھی غیر محدود ہے اور ہمارے گُناہوں کی تعداد کمًّاو کیفًا محدود ہے چاہے لاکھوں کروڑوں اور اربوں میں ہو۔ تعداد کا استعمال محدود پر ہوتا ہے، غیر محدود کو دائرۂ تعداد میں نہیں لایا جاسکتا اس لیے ہمارے گُناہوں کی تعداد کتنی ہی اکثریت میں ہو لیکن آپ کی غیر محدود مغفرت کے سامنے اقلیت میں ہے کہ کیوں کہ کثیر محدود اپنی اکثریت کے باوجود غیر محدود کے سامنے اقلیت میں ہوتا ہے۔ اسی لیے حدیثِ پاک کی دُعا ہے: اَللّٰھُمَّ اِنَّ رَحْمَتَکَ اَوْسَعُ مِنْ ذُنُوْبِیْ؎ اے اللہ! آپ کی رحمت میرے گُناہوں سے زیادہ وسیع ہے پس ہمارے محدود گُناہوں کو اپنے غیر محدود پردۂ ستاریت میں چُھپادیجیے جیسے کسی چیونٹی پر کوئی مُصیبت آرہی ہو، مثلاً تیز بارش یا کوئی اور بلا آرہی ہو اور وہ کسی کریم سے کہے کہ اپنی دس گز کی چادر میں مجھ کو چھپالیجیے، اس میں کہیں ذرا سی پناہ دے دیجیے کیوں کہ آپ کی دس گز کی چادر کا چھوٹا سا گوشہ بھی میرے وجود کو چھپانے کے لیے کافی ہے اور مجھے اس میں چھپانا آپ کے لیے کچھ مُشکل نہیں۔ تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اے اللہ! آپ ستار العیوب ہیں، غیر محدود پردۂ ستاریت کے مالک ہیں، میرے محدود لیکن کثیر گناہوں کو اپنے غیر محدود پردۂ ستّاریت میں چُھپادیجیے۔ اگلے مصرع میں مولانا فرماتے ہیں کہ ؎ انتقام از ما مکش اندر ذُنُوب ------------------------------