درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اس کا طریقہ کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر اپنے نفس کی اصلاح کرانا ہے تاکہ گُناہ چھوٹ جائیں، اور نیکیوں کا نور باقی رہے۔ دین پر استقامت اور اعمال کی بقاء کے لیے اہل اللہ کی صحبت اتنی ضروری ہے کہ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃُاللہ علیہ بانئ تبلیغی جماعت فرماتے ہیں کہ میں جب دین کی محنت کے لیے جاتا ہوں تو مخلوق میں اختلاط اور زیادہ میل جول سے نفس میں کچھ کثافت اور گندگی سی آجاتی ہے اس کو دور کرنے کے لیے میں اہل اللہ کی خانقاہوں میں جاتا ہوں تو دل مجلّٰی ہوجاتا ہے جیسے موٹر کار طویل سفر پر جاتی ہے تو پُرزوں میں کچھ میل کچیل لگ جاتا ہے لہٰذا اس کی ٹیوننگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور صفائی کے لیے کار کو کارخانے میں جس کو ورکشاپ کہتے ہیں بھیجا جاتا ہے۔ اسی طرح دل کی ٹیوننگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کی ورکشاپ خانقاہیں ہیں کیوں کہ نفس چور ہے اس میں خفیہ طریقے سے کُچھ بڑائی کچھ دکھاوا آجاتا ہے۔ جن کا مشایخ اور عُلماء سے تعلق نہیں ہوتا ان کی گفتگو سے پتا چل جاتا ہے اور ان کی زبان سے بڑائی کی باتیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں اور انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ میرے دل میں کیا مرض پیدا ہوگیا۔ اس لیے چاہے کوئی مدرّس ہو، معلّم ہو، مبلّغ ہو، مصنّف ہو تزکیۂ نفس بغیر اہل اللہ کی صحبت اور تعلق کے نہیں ہوتا۔ ایک صاحب نے خود بتایا کہ میں اللہ کے فضل سے دین کے لیے کچھ وقت لگاکر جب کراچی واپس آیا تو مجھے تمام لوگ نہایت حقیر معلوم ہوئے کہ یہ سب غافل ہیں، انہیں دین کی فکر نہیں، عُلماء پنکھوںمیں بیٹھ کر بُخاری شریف پڑھارہے ہیں اور ہم لوگ دریائے سندھ کے کنارے جنگلوں میں جاکر دین پھیلارہے ہیں، لیکن وہ ایک اللہ والے سے بیعت تھے، اُنہوں نے اپنے شیخ کو اپنا یہ حال بتایا کہ مجھے تو بڑے بڑے عُلماء تک شیطان نظر آرہے ہیں۔ ان بزرگ نے کہا کہ سب سے بڑے شیطان تو تم ہو کیوں کہ تمہارے دل میں تکبّر پیدا ہوگیا۔ تم نے اپنے نفس کو مٹانا نہیں سیکھا۔ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو اپنے سے بہتر سمجھو اور اپنے کو سب سے کمتر بلکہ جب تک خاتمہ ایمان پر نہیں ہوجاتا خود کو کافروں سے اور جانوروں سے بھی کمتر سمجھو اور تمہارا حال اتنا