درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
خراب ہوگیا کہ عام مسلمان تو کجا تم عُلماء کو جو وارثینِ انبیاء ہیں، حقیر سمجھ رہے ہو۔ ان بزرگ نے فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ؎ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ایک ذرّہ برابر بڑائی ہوگی اور ایک روایت میں ہے کہ وَلَا یَجِدُ رِیْحَھَا داخلہ تو درکنار جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ اس سے پتا چلا کہ اہل اللہ سے تعلق کتنا ضروری ہے۔ اگر اس شخص کا کوئی شیخ نہ ہوتا تو یہ تو ہلاک ہوگیا تھا کیوں کہ شیطان نے دل میں تکبّر ڈال دیا تھا لیکن شیخ کی ڈانٹ سے سارا تکبر نکل گیا۔ یہ تکبّر اتنا بڑا ایٹم بم ہے کہ حج اور عمرے تہجد و تلاوت و ذکر و نوافل سب کو اُڑادیتا ہے۔ اسی طرح چاہے کتنا ہی بڑا عالم ہو، محدث ہو، شیخ الحدیث ہو، بُخاری پڑھا رہا ہو اگر اللہ والوں سے اصلاحی تعلق نہ ہوگا تو آپ اس کے علم و عمل میں فاصلے دیکھیں گے۔ چاہے علم کا سمندر ہو اگر اصلاح نہ کرائی ہوگی تو آپ دیکھیں گے کہ ہوائی جہاز میں ایئرہوسٹس سے مُسکرا مُسکراکر اور اس کی طرف دیکھ کر باتیں کررہا ہوگا اور زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ؎ کا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ؎ کا علم اس کی طاقِ نسیان میں ہوگا۔ مولانا رومی نے اس شعر میں یہی نصیحت فرمائی ہے کہ جتنا نیکیاں کمانا ضروری ہے ان کی حفاظت کا اہتمام بھی اتنا ہی ضروری ہے جو نفس کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوتا اور نفس کی اصلاح موقوف ہے صحبتِ اہل اللہ پر۔ ------------------------------