درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
تھانوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ظالم نے ایک جملے میں دونوں حج ضایع کردیے۔ یہی نفس کی چوری ہے جس سے نیکیوں کے خزانے خالی ہوجاتے ہیں مثلاً کراچی میں بیٹھے بیٹھے کسی نے غیبت کردی اور جس کی غیبت کی ہے وہ لاہور میں ہے تو گویا اس نے نیکیوں کا مال مُفت میں لاہور بھیج دیا یعنی اس کی نیکیاں لاہور والے کے اعمال نامہ میں چلی گئیں اوراسے خبر بھی نہیں کہ میرا کتنا بڑا نقصان ہوگیا۔ محنت کی کمائی مُفت میں گنوائی۔ غیبت اسی لیے حرام ہے کہ مُفت میں اپنی نیکیاں ضایع ہوتی ہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ قیامت کے دن غیبت کرنے والے کی نیکیاں جس کی غیبت کی ہے اس کے اعمال نامہ میں ڈال دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو اس کے گُناہ اس غیبت کرنے والے کے اعمال نامے میں ڈال دیے جائیں گے اور حدیث پاک میں ہے اَلْغِیْبَۃُ اَشَدُّ مِنَ الزِّنَا الخ؎ غیبت زنا سے بھی اشد ہے۔ صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسُول! غیبت زنا سے کیوں اشد ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زنا حقُّ اللہ ہے۔ اللہ سے مُعافی مانگ لو، مُعاف ہوجائے گا جس سے زنا کیا ہے اس سے مُعافی مانگنا فرض نہیں، لیکن غیبت بندوں کا حق ہے، لاکھ استغفار و توبہ کرتے رہو جب تک وہ بندہ مُعاف نہیں کرے گا مُعاف نہیں ہوگا۔ لیکن حضرت حکیمُ الامّت مجددالملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس میں یہ تشریح ہے کہ غیبت حق العباد اس وقت ہے جب اس بندے کو اطلاع ہوجائے جس کی غیبت کی گئی ہے۔ اگر اس کو اطلاع نہیں ہوئی، اب اگر اس سے مُعافی مانگے گا تو اس کو اطلاع ہوگی اور اس کو تکلیف ہوگی کہ اس شخص نے میری غیبت کی ہے۔ اس صُورت میں غیبت کی تلافی یہ ہے کہ جس مجلس میں غیبت کی ہے ان سب لوگوں کو جمع کرکے ان کے سامنے اپنی نالائقی کا اعتراف کرے کہ مجھ سے سخت نالائقی ہوئی کہ میں نے فلاں کی غیبت کی، ان میں دوسری بہت سی خوبیاں بھی ہیں میں توبہ کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے مُعافی مانگے اور کچھ پڑھ کر ایصالِ ثواب کرے۔ اس طرح غیبت کا گُناہ مُعاف ہوجائے گا لیکن اگر اس شخص کو اطلاع ہوگئی ہے تو اس سے مُعافی مانگنا ------------------------------