درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا سوائے اس کے جسے اللہ کی رحمت کا سایہ حاصل ہے۔ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌبِالسُّوْءِ؎ جملہ اسمیہ ہے جو ثبوت و دوام پر دلالت کرتا ہے یعنی کوئی شخص نفس کے شر سے نہیں بچ سکتا جب تک اسے خالق نفس اَمَّارَہْ بِالسُّوءِ کا استثناء اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّی نصیب نہ ہو۔ اگر نفس اَمَّارَہْ بِالسُّوءِ ہے تو اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّی کا یہ استثنا بھی خالقِ نفس امَّارہ کا ہے پس اس استثنا کے ہوتے ہوئے نفس امَّارہ بالسُّوء کی کیا مجال جو ڈنک مارسکے۔علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مَا رَحِمَ رَبِّی کا مَا مصدریہ ظرفیہ زمانیہ ہے جس کے معنیٰ ہوئے اَیْ فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْ؎یعنی جب اللہ کی رحمت کا سایہ ہو تو نفس کی کیا مجال ہے کہ وہ ہمیں ضرر پہنچاسکے۔ مولانا کی دُعا کا یہی مضمون ہے کہ اے اللہ! اگر آپ کی رحمت کا سایہ ہم پر ہو تونفس و شیطان ہمیں گُناہوں کے زیرِ دام نہیں کرسکتے۔ موش تا انبار ماحفرہ زدہ است وازفنش انبارِ ماخالی شدہ است ارشاد فرمایا کہ کھیت میں جہاں غلّہ کا ڈھیر رکھا ہوتا ہے اسے کھلیان کہتے ہیں وہاں چُوہازمین میں نیچے نیچے سوراخ کرکے دور تک راستہ بنالیتا ہے اور دھیرے دھیرے سارا غلّہ غائب ہوجاتا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ جس طرح چوہا غلّہ کا چور ہے اسی طرح ہمارا نفس بھی چور ہے۔ جب سے ہمارے نفس کے چوہے نے ہماری نیکیوں کے کھلیان اور خزانے میں خُفیہ راستہ بنالیا ہے تو اس کے اس فن اور کیدو مکر سے ہماری سب نیکیاں ضایع ہوگئیں مثلاً کہیں دکھاوا کرادیا، کہیں تکبر کرادیا، کہیں ظلم کرادیا جس سے سارے اعمال ضایع ہوجاتے ہیں جیسے ایک حاجی نے کہا کہ اے نوکر! میرے مہمان کو اس صراحی سے پانی پلادے جو میں دوسرے حج میں مدینہ شریف سے لایا تھا۔ حضرت ------------------------------