درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
راستہ حمقاء اور بے وقوفوں کے لیے نہیں ہے، وہ کیا جانیں کہ جس کو اللہ غیر سے نامراد کرکے اپنا مراد بنائے گا اس کے قلب کو کیا مستی دے گا۔ وہ تو اعلان کرے گا ؎ بادہ در جوشش گدائے جوشِ ما ست چرخ در گردش اسیرِِ ہوش ماست سارے عالم کی شراب میری مستی کی گدا ہے۔ یہ مولانا روم ہیں، کیوں اُنہوں نے سارے عالم کے مے خانوں کو للکارا، اپنے میکدۂ عشقِ غیر فانی سے اعلان نشر کیا کہ سارے عالم کی شراب میرے جوش و مستی کی گدا اور بِھک منگی ہے اور آسمان اپنی گردش میں میرے ہوش کا قیدی ہے کیوں کہ میں تجلیاتِ خالقِ ارض و سما رکھتا ہوں اس لیے وسعتِ ارض و سماء میرے اندر تنگ ہے۔ آسمان و زمین میرے ہوش کا ایک جز ہیں اور جز اپنے کُل کے سامنے چھوٹا ہوتا ہے۔ آسمان و زمین کیا حقیقت رکھتے ہیں کہ اپنے طول و عرض پر فخر کریں ؎ ان کی نظر کے حوصلے رشکِ شہانِ کائنات وسعتِ قلبِ عاشقاں ارض و سما سے کم نہیں یہ میرا ہی شعر ہے اور یہ شعر بھی ؎ دامنِ فقر میں مِرے پنہاں ہَے تاجِ قیصری ذرّۂ دردِ غم ترا دونوں جہاں سے کم نہیں لوگ حقیر سمجھتے ہیں کہ ان مولویوں اور صوفیوں کے پاس کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اولیاء کا دامنِ فقر دیکھو جس میں قیصرِ روم و سلاطینِ کائنات کے تخت و تاج پوشیدہ ہیں۔ تمہیں کیا پتا، اس کا نشہ قلب میں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اللہ والوں کے اور ان کے غُلاموں کے ظاہری دامن میں تاجِ قیصری اور موتی دے دیتا تو پرچہ آؤٹ ہوجاتااور عالمِ غیبِ عالم غیب نہ رہتا اور جب پرچہ آؤٹ ہوجاتا ہے تو امتحان دوبارہ ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے عالمِ غیب رکھا کہ پرچہ آؤٹ نہ ہو اور یہاں جو پرچے آؤٹ ہوتے ہیں اس کی