درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
فیکٹری فیل ہوجائے کیوں کہ میں مقامِ نامُرادیت پر فائز ہوں۔ جہاں میرا ہاتھ لگے گا وہیں نامرادی آئے گی اور تیرا بھی کام بگڑ جائے گا اس لیے مجھے وہاں نہ لے جا۔ اللہ نے مجھے اپنا مُراد بنایا ہے، میری مرادوں کو وہ نامراد کرتا رہتا ہے۔ میری نامرادی مخلوق کے ساتھ ہے، حق تعالیٰ کا میں مراد ہوں۔ میرے ساتھ رہو گے تو اپنی مُرادوں میں تو بامُراد نہ بنو گے لیکن مُرادِ خالق بن جاؤ گے، اللہ کے پیارے بن جاؤ گے، اللہ کی مراد بن جاؤ گے۔ لہٰذا دنیا کی مراد چاہتےہو تو کوئی اور انتظام کرو۔ ہمیں کیوں اپنی دنیا کے لیے گھسیٹتے ہو کہ یہاں چلو، وہاں چلو۔ ہمارے صحراؤں سے ہمارا خروج نہ کراؤ ہم سکوتِ صحرا میں اپنے اللہ کی یاد میں مست ہیں تم یہیں آجاؤ اور اللہ کی محبت سیکھو۔ اگر ساری دنیا میں کسی کونامرادی ہو لیکن جب وہ اللہ کا مُراد ہو تو اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل اور سارے غموں کا نعم البدل ہے اور اس کا کوئی بدل نہیں۔ لہٰذا ایسے شخص کے دل میں اپنی مرادی پر حسرت و غم نہیں ہوگا بلکہ وہ سمجھ جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اس طریقے سے مجھے اپنا بنانا چاہتے ہیں اس لیے مجھ کو نامراد فرماتے ہیں کیوں کہ ہماری بامرادی آب و گِل سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آب و گِل میں نہیں پھنسانا چاہتے، اپنی تجلّیاتِ قُرب سے اپنے اس بندے کو متجلّی رکھنا چاہتے ہیں، پھر سارے عالم کو اس ایک بندے سے متجلی کرتا ہے۔ بہت راز کی بات آج فاش کررہا ہوں لہٰذا اگر کوئی مراد پوری نہ ہو تو سمجھ لو کہ میرے محبوبِحقیقی کی مُراد یہی ہے کہ یہ میرا مُراد رہے کہیں اپنی مُرادوں میں مشغول نہ ہوجائے۔ اگر اپنی مُرادوں میں یہ مشغول ہوگیا تو پھر اللہ کی مُراد کیسے بنے گا۔ اللہ تو چاہتا ہے کہ یہ سفر میں رہے، اس سے دین پھیلایا جائے اسی لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی کہ اے اللہ! عُلماء کے رزق کو سارے عالم میں منتشر فرمادیجیے جب یہ جگہ جگہ اپنا رزق کھانے جائیں گے تو میرا دین بھی پھیلائیں گے۔ نشرِ رزقِ العلماء ذریعہ ہوگا نشرِ علمِ دین کا اس لیے دعوتِ عُلماء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا کا ثمرہ ہے، لہٰذا مولانا لوگوں کو مُرغا کھلاکر کو ئی اپنا احسان نہ جتائے۔ نامرادی کا مزہ بظاہر تو کڑوا ہے۔ دنیا دار تو اس سے گھبرائے گا کہ میں نامرادی نہیں چاہتا، یہ عُلماء و اولیاء کے لیے مبارک ہو، ہماری تو ہر مُراد اللہ پوری کردے۔ یہ نامُرادی کا