درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
مولانا رومی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور چرواہے کے قصے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکایۃً فرماتے ہیں کہ اے موسیٰ! اہلِ ہوش و خرد کے لیے آداب دوسرے ہیں اور میرے بھولے بھالے بندے جو مجذوب ہوگئے ان کے آداب اور ہیں۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ مجاذیب کی عقل عام عقول کی بہ نسبت ذرا سی کم کردی جاتی ہے، جس سے وہ احکام کے مکلّف نہیں رہتے اگرچہ اللہ تعالیٰ کے مقبول ہوتے ہیں۔ عام آدمیوں کو غیر مکلّف کی نقل جائز نہیں، ان کو احکامِ شریعت کی اتباع ضروری ہے۔ ارشاد فرمایا کہچوں کہ آج کل بنگلہ دیش سے مہمان آئے ہوئے ہیں اور مچھلیاں اہلِ بنگال کی معشوق ہیں تو میں نے سوچا کہ ان کی خاطر سے ایک شعر مچھلی والا پیش کردوں کیوں کہ وہ مہمان ہیں اور مہمان کا اکرام کرنا چاہیے۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃُاللہ علیہ بھی اس شعر کو بہت پسند فرماتے تھے کہ ؎ دائم اندر آب کارِ ماہی است مار رابا اُوکجا ہمراہی است ہر وقت پانی میں رہنا مچھلیوں کا کام ہے، ہر وقت باخُدا رہنا، ہر وقت اللہ کی مرضی پر چلنا، ہر وقت اللہ پر اپنی جان فدا کرنا یہ اللہ والوں کا کام ہے۔ پانی چاہے کتنا ہی ٹھنڈا اور یخ ہو آپ نے کبھی کسی مچھلی کو کھانستے ہوئے نہیں سُنا ہوگا۔ پانی ٹھنڈا ہو یا گرم ہو مچھلی پانی ہی میں رہے گی۔ سانپ کو یہ مقام کہاں مل سکتا ہے کہ مچھلیوں کا ساتھ دے اور ہر وقت پانی میں رہے۔ کچھ دیر تو وہ پانی میں رہے گا لیکن پھر خشکی میں آکر بدن کو سکھائے گا کیوں کہ سانپ میں زہر ہے اور مچھلیوں میں زہر نہیں ہے۔ مولانا کا اشارہ یہ ہے کہ تمہارا دل جو اللہ کے قُرب کے راستے میں نہیں لگ رہا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ تمہارے اندر گناہوں کا زہر موجود ہے، تم مثل سانپ کے ہو، مولانا فرماتے ہیں تم گناہوں کی اور اخلاقِ رذیلہ کے زہر کی تھیلی نکلوادو اور مچھلی پن سیکھو، اخلاقِ ماہیاں سیکھو یعنی اللہ والوں کے اخلاق سیکھو پھر تمہیں اللہ کے دریائے قُرب کے علاوہ کہیں مزہ نہیں آئے گا، پھر