درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
مولانا نے ایک مجذوب کا قصہ لکھا ہے کہ وہ یہی دعا مانگا کرتا تھا کہ اللہ میاں! مجھ کو بغیر محنت مشقت کے روزی عطا فرمائیے اور جب نہیں پاتا تھا تو کچھ کام کاج بھی کرلیتا تھا کہ شاید اللہ کو یہی منظور ہے کہ رگڑے کھلاکر روزی دیں گے۔ مگر مانگتا ہی رہتا تھا۔ تین سال کے بعد ایک دن ایک گائے اس کے گھر میں گھس آئی، اس نے کہا کہ بس آج میری روزی آگئی۔ بھولا بھالا سیدھا سادا سا تھا، اس کو یقین آگیا کہ میری تین سال کی دُعا آج قبول ہوگئی بس فوراً دروازہ بند کیا، گائے ذبح کی اور اس کی دست اور ٹانگ کو دیوار پر ٹانگ دیا اور روزانہ تھوڑا تھوڑا کاٹ کر کھاتا ہے۔ جس کی گائے تھی وہ تلاش کرتے کرتے ایک دن اس کے گھر میں آگیا اور دیکھا کہ گائے کے دست و بازو ٹنگے ہوئے ہیں اور مجذوب آرام سے کھارہا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ کس کی گائے ہے؟ مجذوب نے کہا ہمیں کیا معلوم، ہم تو تین سال سے مانگ رہے تھے کہ اللہ میاں! ہمیں خود بخود روزی دے دیجیے تو یہ گائے خود بخود آگئی۔ گائے والے نے عدالت میں مقدّمہ کردیا۔ جج نے دیکھا کہ یہ آدمی سیدھا سادا ہے، یہ چوری نہیں کرسکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ کوئی خاص مُعاملہ ہے۔ اس نے تحقیقات کےلیے جاسوس لگادیے کہ معلوم کرو کہ اس گائے پر اس کا کوئی شرعی حق تو نہیں بنتا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اس کے دادا کا حق گائے والے کے دادا نے مار لیا تھا، گائے دراصل اس کے دادا کا ترکہ تھی۔ مولانا رومی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بھولے بھالے بندوں کو اس طرح روزی دیتا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ کی بات نہیں ہے۔ وہ مجذوب بھولا بھالا تھا، غیر مکلَّف تھا ، اللہ تعالیٰ نے اس کا حق اس طرح دلادیا، لیکن ہر شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ بدون دلیلِ شرعی دوسرے کی گائے ذبح کر ڈالے یعنی دوسرے کی چیز ہتھیالے اور اپنے نفس کو فریب دے کہ اس میں میرے باپ دادا کا حصہ ہوگا۔ عقل و فہم والوں کے احکام الگ ہیں اور سیدھے سادے مجذوبوں کے احکام الگ ہیں ؎ موسیا آدابِ دانا دیگر اند سوختہ جانے روانا دیگر اند