درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
چیئرمینی حاصل کرنے کی کوشش ضروری ہے کہ یہ سب دنیا داری ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ دیکھو اپنے اپنے طریقے ہیں جس کو جہاں فائدہ نظر آئے وہ اُسی طرف چلا جائے لیکن ہمارے بزرگوں کا جو طریقہ ہے وہ اتنا حساس ہے کہ اس کے ساتھ سیاست جمع نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے یہاں لکھا ہوا ہے کہ حدودِ خانقاہ اور حدودِ مدرسہ میں سیاسی گفتگو منع ہے۔ اگر کسی کو سیاست کے طریقوں سے مناسبت ہے اور اس کو اس بارے میں شرح صدر ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہی میرے لیے مُفید بھی ہے اور ضروری بھی ہے تو وہ مجھ سے برادرانہ تعلق رکھے لیکن مربّیانہ و شاگردی کا تعلق نہ رکھے کیوں کہ ہمارے بزرگوں نے منع کیا ہے کہ ہم اہلِ سیاست میں سے ہوں۔ لہٰذا ایک راستہ اختیار کرو۔ دو مَسلک پر بیک وقت کوئی نہیں چل سکتا، ایک ٹانگ ایک کشتی پر دوسری ٹانگ دوسری کشتی پر نہ رکھو ورنہ انجام ظاہر ہے۔ جو مسلک تمہاری سمجھ میں آئے اس پر چلے جاؤ۔ اگر اہلِ سیاست سے مناسبت ہے تو اُدھر چلے جاؤ اور اگر خالص اہل اللہ کے راستے سے یعنی شعبۂ تربیت و اصلاح اور شعبۂ تز کیۂ نفس پر یقین ہے تو ادھر آجاؤ اور پھر اُدھر نہ جاؤ اور اس طبقے کا نام اہلِ عشق و اہلِ محبت ہے۔ اس طبقے میں جلالُ الدین رومی، شمس الدین تبریزی، جنید بغدادی، بابا فریدالدین عطار، خواجہ مُعین الدین چشتی اجمیری، شیخ عبدالقادر جیلانی، شہاب الدین سہروردی، شیخ بہاؤ الدین نقشبندی اور دوسرے ہزاروں اولیاء اللہ ہیں، یہ طبقہ عاشقوں کا ہے۔ اس طبقے کا نام اخؔتر نے رکھا ہے ’’عاشق عشق و مستی، ناواقف انتظامِ بستی‘‘۔ انتظامِ بستی سے مناسبت ہے تو وہاں چلے جاؤ لیکن اگر اللہ کی محبت سیکھنی ہو تو اہل اللہ کے پاس چلے آؤ لیکن پھر تمہیں اہلِ دنیا کی کرسی کھینچنے کے لیے الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہوگی کیوں کہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ یہ ہے کہ ہم کرسی والوں کی تربیت کریں گے، ان کی کرسی چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے پھر وہ ہماری سُنتے ہیں اور جب ہم ان کی کرسی کھینچتے ہیں تو پھر وہ گالیاں دیتے ہیں۔ جس مولوی کو گالیاں ملیں گی تو اس سے قرآن و حدیث کون سیکھے گا؟ کرسی کھینچنا اور ہے اور کرسی والوں کی تربیت کرنا اور ہے۔ ہمارے حکیمُ الامّت تھانوی رحمۃُاللہ علیہ کا مسلک یہ تھا کہ جو اہلِ حکومت ہیں ان کو دین پہنچاؤ اور ان کی تربیت کرو جتنا تم سے ہوسکے لیکن اگر