درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
تم ان کا مقابلہ کرو گے اور جھنڈا لے کر ان کی کُرسی چھیننے کی کوشش کرو گے تو پھر وہ تم کو مولوی صاحب نہیں کہیں گے مولی صاحب کہیں گے، تمہاری تضحیک و اہانت کریں گے یہاں تک کہ مار پٹائی ہوجاتی ہے اور یہ کوئی سُنی سُنائی بات نہیں ہے مشاہدات ہیں۔ اخباروں میں دیکھا جاتا ہے کہ مولانا صاحب کو پولیس والے کھینچ رہے ہیں، ڈنڈے مارے جارہے ہیں، لاٹھی چارج ہورہی ہے۔ حضرتحکیمُ الامّت مجدّد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسلام میں یا جہاد ہے یا صبر۔ اگر قوت ہے اور قوت بھی وہ جس کو شریعت قوت کہتی ہے تو جہاد کرو اور قوت نہیں ہے تو صبر کرو۔ یہ لاٹھیاں کھانا، جتھے جلوس نکالنا، نعرے مارنا، بھوک ہڑتال کرنا، جیل جانا یہ دین نہیں ہے، یہ تو یہود و نصاریٰ کے نکالے ہوئے طریقے ہیں ورنہ بتائیے پہلے بھی بہت ظالم بادشاہ ہوئے ہیں لیکن کوئی ایک مثال دے دو کہ کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی یا سلف صالحین میں کسی نے بھوک ہڑتال کی ہو یا جلوس نکالے ہوں یا نعرے مار کر لاٹھیاں کھائی ہوں۔ یہ سب یورپ کی ایجاد ہے اورتعجّب یہ ہے کہ جو لوگ یورپ دشمنی کے علمبردار ہیں وہ ان طریقوں کو اپناکر یورپ کی اتباع کرتے ہیں اور دین کے احکام کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اسی لیے ایک مشہور پادری نے کہا تھا کہ جو لوگ سیاسی تحریکات میں ہیں ان سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں کیوں کہ اپنے حصولِ مقصد کے لیے وہ ہمارے ہی طریقوں کو اپنارہے ہیں اور حضرت حکیمُ الامّت مجدد الملت مولانا تھانوی کے بارے میں کہا کہ ہمارا اصل دُشمن یہ شخص ہے کہ کسی بڑی سے بڑی مصلحت کی خاطر وہ اپنے دین کے ادنیٰ سے ادنیٰ حکم کو نہیں چھوڑتا۔ غرض جو عالم سیاست میں پڑا پھر اس سے دین کا کام نہیں لیا جاتا کیوں کہ عوام دیکھتے ہیں کہ مولوی صاحب ڈنڈے کھارہے ہیں اور نعرے لگارہے ہیں تو ان کے دل سے ایسے عالم کی عظمت نکل جاتی ہے، جب عالم کی بے قدری ہوگی تو کون اس سے دین سیکھے گا۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ کرسی کی وجہ سے مخالف ہوجاتے ہیں اور پھر اس سے کبھی دین نہیں سیکھتے۔ اس لیے بزرگوں نے لکھا ہے کہ جو شیخ کے منصب پر فائز ہو اس کو لوگوں کے درمیان فیصلے بھی نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ فیصلہ کسی کے حق